مشکل شعر بھی اچھا ہو سکتا ہے ، لیکن مہم شعر اور مشکل شعر ہم معنی اصطلاحات نہیں ہیں ۔ غالب کو مشکل گو کہہ کر ٹال دینے کے معنی یہ ہیں کہ انھیں غزل میں قصیدہ نگار فرض کیا جائے یا انہیں الفاظ کو ٹکر ا ٹکرا کر زبردستی ایک بھونڈی شعری عمارت تعمیر کرنے کا مجرم ٹھہرایا جاۓ ۔ ایلز بتھ بیرٹ براؤٹنگ نے اپنے شوہر کے بارے میں کہا تھا کہ بہت سے شاعر چلتی دھوپ میں کھڑا ہو نا پسند کرتے ہیں اور بہت سوں کو تاریک گھر کی نیم روشنی اچھی لگتی ہے ۔ میرا شوہر موخر الذکر میں سے تھا ۔ تاریخ نے عموما یہ فیصلہ کیا ہے کہ دھوپ میں کھڑے ہونے والوں کے شعر بہتر تھے ۔ لیکن ایلز بیٹے نے ایک تیسری قسم کے شعرا کو نظر انداز کر دیا تھا ۔ یعنی وہ شاعر جو تاریک گھر کی نیم روشنی میں رہتے ہیں لیکن ان کا وجود نیم روشنی کو دھوپ میں شہد کر دیتا ہے ۔ غالب انھیں میں سے تھے ۔
کلام غالب میں طنز و مزاح
ہنسنا ، ہنسانا انسان کی فطرت میں داخل ہے ۔ اس کے ذریعے تھوڑی دیر کے لئے غم دور ہو جاتا ہے اور انسان خوشی سے ہمکنار ہو جا تا ہے ۔ بنے ہنسانے کا یہ فن ادب کی اصطلاح میں مزاح کسلاتا ہے ۔ مزاج کسی کھی ، کسی پر صورتی پر خوش دلی سے بننے کا نام ہے ، اس میں غم و غصہ شامل نہیں ہوتا اور مسرت حاصل کرنے کے سوا اس کا کوئی اور مقصد بھی نہیں ہوتا ۔ اس کے بر خلاف طنر با مقصد ہوتا ہے ۔ طنز نگار کسی برائی کو اور زیادہ برا بنا کر اس طرح پیش کرتا ہے کہ لوگ اس برائی سے نفرت کرنے لگیں اور اسے ختم کرنے کی کو شش کر یں ۔
مرزاسد اللہ خاں غالب ( 1797-1869 ) کو اردو کا پہلا مزاح نگار مانا گیا ہے ۔ اردوادب میں انہوں نے جدید طنز و مزاح کی ابتداء کی ہے ۔ ان کے طنز اور مزاحیہ خیالات نثر اور نظم دونوں میں ملتے ہیں ۔ نائب فطر ناظر ایف انسان تھے ۔ ان کے مزاج میں ظرافت اور شوخی کا عنصر بہت غالب تھا ۔ اپنی ذاتی زندگی میں ، دوستوں کی محفلوں میں وہ اپنی باتوں سے لوگوں کو ہنساتے رہتے تھے ۔ یہی ظرافت اور شوخی ان کے کلام میں بکثرت ملتی ہے ۔ غالب کے مزاج میں ظرافت اس قدر تھی کہ اگر ان کو بجاۓ حیوان ناطق کے حیوان کہا جائے تو بجا ہو گا ۔
حسن بیانی ، حاضر جوابی اور بات میں بات پیدا کرنا ان کی خصوصیات میں سے تھے ۔ غالب کا ظرف بہت وسیع ہے ۔ جہاں دوسرے کے جگر شق ہو جاتے ہیں وہاں غالب صرف دھیرے سے مسکرا دیتے ہیں ۔ ان آبلوں سے پاؤں کے گھبرا گیا تھا میں ہی خوش ہوا ہے راو کو پر خار دیکھ کر غالب کی ظرافت تبسم زیر اب کی ظرافت ہے ۔ اس میں لطافت و بلندی ہے ، فرحت اور انبساط ہے ، مسرت اور خوش دلی ہے لیکن تعلنی یا کڑواہٹ ، تنقیص یا تنقید ، دل کلنی بالڈیت رسانی کا شائبہ تک نہیں ملتا ۔ پلادے اوک سے ، ساتی ! جو ہم سے نفرت ہے پیالہ نہیں دیتا ، نہ دے ، شراب تو دے امد خوشی سے مرے ہاتھ پانو پھول گئے کہا جو اس نے ، ذرا میرے پانو واب تو دے غالب کے طنز و مزاح کو گل افشانی گفتار اور دلفریبی رفتار کا نام تو و یا جا سکتا ہے لیکن ان کی ظرافت کو عریانی ابتدال یا استہزاء سے موسوم نہیں کیا جا سکتا ۔
مارا زمانہ نے اسد اللہ خاں تمہیں وہ ولولے کہاں ، وہ جوانی کدھر گئی رونے سے اور عشق میں بے باک ہو گئے و ھوۓ گئے ہم اتنے کہ اس پاک ہو گئے غالب کے طنز و مزاح کی مماثلت کے لئے سیکٹر یا اس کا کچھ حد تک ایڈیشن کا ذکر کیا جا سکتا ہے لیکن غالب کی ظرافت کے سلسلے میں انشاسی ، سودا ، جاندن سویلت بر نارڈ شدہ کا نام نہیں لیا جا سکتا ۔
جمع کرتے ہو کیوں رقیبوں کو ؟ اگ تماشہ ہوا ، گلا نہ ہوا پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق آدمی کوئی ہمارا دم تحریر بھی تھا ؟ غالب سے پہلے کی شہ عربی صرف دل والوں کی دنیا تھی ۔ غالب نے اسے ذہن دیا ۔ انہوں نے غزل میں نئے نئے مضامین اور نئے نئے موضوعات داخل کئے اور اس کے موضوعات کو بہت وسیع کیا ۔ شوق ہر رنگ رقیب سر و ساماں نکلا قیں تصویر کے پردے میں بھی عریاں نکلا کیوں نہ فردوس میں دوزخ کو ملالیں یارب ؟ سیر کے واسطے تھوڑی سی فضا اور سہی جہاں تک غالب کا تعلق ہے ، ان کے کلام کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ مرزانہ توز ند گی کو طنز کا نشانہ بناتے ہیں اور نہ ہی ساج کی دوسری باتوں کو بلکہ بیشتر دو خود اپنی ہی ذات کو طنز کا موضوع بناتے ہیں ۔ ہو گا کوئی ایسا بھی ، کہ غالب کو نہ جائے ؟ شاعر تو وہ اچھا ہے ، پہ نام بہت ہے غالب براند مان ، جو واعظ برا کہے ایسا بھی کوئی ہے ، کہ سب اچھا نہیں ہے ؟ غالب کا طنران کی ظرافت مزاج اور شوی وطیع کا نتیجہ ہے ۔ غالب کے کلام میں شوٹی ، بے تفتی ، لاتی پیر جتنی بھی خوب ملتی ہے ۔
عشق نے غالب نکما کر دیا
ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے
کعبہ کس منہ سے جائو گے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی
غالب مذ ہبی جذبات پر مزاحیہ طنز بھی کرتے اور کہتے ہیں ۔ واعظ نہ تم پیو نہ کسی کو پلا سکو کیا بات ہے تمہاری شراب طہور کی جس میں لاکھوں پر اس کی حور میں ہوں ایسی جنت کا کیا کرے کوئی نہ پونچھ اس کی حقیقت حضور والانے مجھے جو بھیجی ہے مین کی روشنی روٹی نہ کھاتے کیوں نکلتے وہ خلد سے بام جو کھاتے حضرت آدم یہ ٹیسٹی روٹی غالب کی شاعری میں سلامت روانی ، حدت ، بلند خیالی اور فلسفہ پا یا جاتا ہے ۔
فلسفیانہ انداز میں غالب طنز کرتے ہیں ۔ ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت ، لیکن ول کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے حیران ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کوٹی مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں بہرا ہوں میں تو چاہے وہ نا التفات سنتا نہیں میں بات مکرر کے بغیر غالب کے اکثر اشعار کا ظاہر کچھ اور ہو تا ہے اور وہ کہنا کچھ اور چاہتے ہیں ۔ کوئی ویرانی کی پرانی ہے وشت کو کچھ کر گھر یاد آیا غالب نے جگہ جگہ اپنی ویرانی مفلسی ، بد حالی اور شکستگی پر بھی بھر پور ملکر کیا ہے ۔ ان کا لہ منہ میچ تو لہ فی ہر گز نہیں ہے ۔
رنگ رہا ہے درو دیوار پر نصیر و غالب
ہم بیاباں میں ہیں اور گھر میں بہار آئی ہے
انکار اختلافات او استفسار غالب کے اشعار کے موضوعات ہیں ۔ جب میکدہ چھٹا ، تو پھر اب کیا نگہ کی قید مسجد و مدرسہ کو کوئی فائدہ ہو غالب نے اردو ادب کو ایک نئی بصیرت اور تازگی و آگہی سے روشناس کرایا ہے ۔ جنہوں نے ماورائیت کو مجروح کئے بغیر ارضیت کی ایک نئی روایت کو اردو غزل کی تاریخ میں شامل کر دیا ۔
ایک بزرگ ہمیں ہم سفر ملے حيف اس پیار کرو کپڑے کی قیمت غالب جس کی قسمت میں ہو عاشق کا کر یہاں ہو تا غالب کے طنزیہ اور مزاحیہ اشعار کو سمجھے یہ ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہے ۔ مرزا غالب کی شاعری میں جدید طنز و مزاح کے خیالات نجر پور ملتے ہیں ۔
غالب نے طنز و مزاح کے لئے وہ کام کئے ہیں ، جن سے بعد کے طنز و مزاح والوں کی راہ آسان ہو گئی ۔ غالب کی شاعری میں طنز و مزاح کے نوع بہ نوع اسالیب جلوہ گر ہیں ۔ یعنی کہیں تو محض طنز ہے اور کہیں طنز ومزاح بیک وقت موجود ہیں اور کہیں جھنجلاہٹ وار مزاح ہے اور کہیں صرف مزاج ہے ۔ غالب سے پہلے اردو شاعری کے پاس جذبات تھے احساسات تھے ، لیکن وہ حسین و شوخ ذہانت نہ تھی جو پیکر الفاظ میں روح پھونک دیتی ہے ۔ یہ مرزا کا عطیہ ہے اور اس پر اردو جتنا بھی ناز کرے کم ہے ۔
کلام غالب میں صوفیانہ عناصر
شاعری میں تصوف کو بہت زیادہ اہمیت حاصل رہی ہے ۔ صوفیا کبھی اپنا علم بلا واسطہ عام نہیں کرتے لیکن بہت سے صوفیا نے شاعری کے ذریعے اللہ کی ذات ، قرآن کے معنی اور اللہ سے اپنے عشق کو بیان کیا ہے ۔ صوفیا نے اپنی بات کو شاعری کی شکل میں اس لیے بھی بیان کیا کہ اس طرح بات بدلتی نہیں ہے کیونکہ شعر کو ہمیشہ لفظ بہ لفظ نقل کیا جاتا ہے ۔
شاعر جتنا اپنے نفس کو صورت پزیر کرنے میں کامیاب ہو تا ہے اتنا ہی اعلی متصور ہوتا ہے ۔ صوفی جب اپنے نفس میں جھانک کر آگہی کو اشعار کاروپ دیتا ہے تو تخلیق کے عمل سے گزر کر ایسا کر پاتا ہے ۔ صوفی کا اپنی زندگی کے ساتھ ایسا رشتہ ہوتا ہے کہ وہ زندگی کی گہما گہمی میں عامل بھی ہوتا ہے اور خارج بھی ، یہی حال شاعر کا ہوتا ہے اس لیے صوفی کے لیے یہ آسان ہو تا ہے کہ وہ اپنے خیالات کو شعر کی شکل دے کر اپنامدعا بیان کرے ۔ شاعری پر بھی تصوف کا بہت گہرا اثر پڑا ۔
شاعری نے تصوف کی تعلیمات میں راز داری کی لہر سے ہی ” اخفائے راز ” کا گر اور رمزیت سیکھی ۔ بہت سے شعرا ایسے گزرے ہیں جنہیں عموما صوفی نہیں سمجھا جاتا تھا لیکن انہوں نے صوفیانہ شاعری کی ، دراصل وہ خدا کی ذات سے معرفت حاصل کر چکے تھا لیکن جیسا کہ صوفی کی تعریف میں کہا جاتا ہے کہ اسے عام آنکھ نہیں پہچان سکتی ۔ تصوف میں جناب غوث الاعظم کا بہت اونچا مقام ہے ، انہوں نے شاعری کی صورت میں اپنے علم کو بیان کیا ۔ آپکا ایک شعر ہے ۔
وقت خیلی خد اور رقص آمده کوه طور اندرول سلمین سنگ از پیدا شد طرب یعنی تجلی خدا کے وقت کوہ طور پر رقص کی کیفیت طاری ہو گئی اور یوں سخت دل پتھر کے اندر بھی طرب اور مستی پیدا ہو گئی ۔ ۔ اسی طرح اکبر الہ آبادی کی شاعری میں بھی تصوف کی جھلک ملتی ہے ۔ پس جان گیا میں تری پہچان نہیں ہے تحول میں تو آتا ہے سمجھ میں نہیں آیا اکبر نے خدا کی ذات میں موجود ایک راز کا ذکر کیا ہے کہ اللہ کو دل والے پہچان سکتے ہیں لیکن عام آنکھ نہیں پہچان سکتی ۔ اس شعر سے یہ لگتا ہے کہ اکبر کو بھی اللہ کی ذات کو جانے کا موقع اللہ کی طرف سے دیا گیا اور اکبر نے یہ جانا کہ ا للہ کو جاننا بہت مشکل ہے اور پھر اسے دل میں رکھا جاتا ہے زبان پر نہیں لایا جا سکتا ۔
بہرام جی کی شاعری میں بھی تصوف کے ذرات ملتے ہیں ، آپ کا ایک شعر ہے ۔ ے یار کو ہم نے پر ملا دیکھا آشکار کہیں چھپا دیکھا صوفیا کہ دو گروہ میں ایک وہ جو وحدت الوجود کا قائل ہے اور دوسرا وحدت النشود کا ۔ زیادہ صوفیا کا جھکاؤ وحدت الوجود کی طرف رہا ، جن صوفیا نے شاعری کی ان میں مومن خان مومن کے علاوہ سب ہی کسی نہ کسی حد تک وحدت الوجود کے قائل تھے، صرف مومن نے اس نظریہ کی سختی سے تردید کی ۔
جب کہ خواجہ میر در و جنہیں تصوف کا سب سے بڑا اردو شاعر گردانا جاتا ہے دوسرے گروہ سے تعلق رکھتے ہیں ۔ جنگ میں آکر ادھر ادھر دیکھا توی آیا نظر جید عمر دیکھا بہت سے صوفی شعرا ، دونوں نظریات کو صحیح مانتے ہیں جیسا کہ سید جلال الدین توفیق لکھتے ہیں ۔ ادھر دیکھوانہی کاظاہر و باطن میں ہے جلوہ کبھی وہ دل میں رہتے ہیں بھی چشم تماشائیں ان تمام شعراء میں مرزا اسد اللہ خاں غالب کو ایک منفرد مقام حاصل ہے ۔
حالی کہتے ہیں : ” لٹریری قابلیت کے لحاظ سے مرزا ( غالب ) جامع حثیت آدمی فیضی اور خسرو کے بعد آج تک نہیں آیا غالب کے کلام میں فلسفہ ، حکمت ، تصوف اور فکر سب کچھ ملتا ہے ۔ غالب کی شخصیت ہمہ گیر تھی ۔ شاعروں کی محفل میں سند صدارت پر نظر آتے ، صوفیوں کی صحبت میں شاہد و مشہود کے راز بیان کرتے ، مذہب کے حقائق کو اشعار میں بیان کرنے میں انہیں ملکہ حاصل تھا ۔ اور انہیں اس بات کا ادراک بھی تھا آپ فرماتے ہیں ۔ اگر شہر میں کوئی سخن ور ہے تو اسے میرے سامنے لاؤ کیونکہ مجھے بھی کچھ کہنا ہے ۔ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ میں شاعر بننے پر آمادہ نہ تھا لیکن فن شاعری نے مجھ سے خود استدعا کی کہ مجھے اپنا لیجے ۔
کسی قدیم شاعر کی زمین یا خیال پر شعر لکھا جاتا تو فرماتے کی میں نے توارد نہیں کی بلکہ اس شاعر نے ازل میں ہیں میری متاع چرالی تھی ۔ کہا جاتا ہے کہ غالب زمانے کی نہ قدری سے تنگ آکر قنوتیت پسند بن گئے تھے ، آخر ایک وقت ایسا آ گیا کہ آپ کو زمین و آسمان بھی جام و مینا نظر آتے تھے پھر بات یہاں تک پہنچی کی خدا اور عشق کی بات کرتے ہوے بھی بادہ و ساغر کئے بغیر نہ رہے ۔
اس سلسلے میں اہم بات یہ ہے کہ عمر خیام ، حافظ اور غالب معرفت سے سرشار ہیں لیکن تینوں شراب نوشی میں اتنے مشہور ہوئے کہ عام لوگ انہیں صوفی نہیں بلکہ مئے خوار سمجھتے ہیں ۔ اسی لیے ان کے بہت سے اشعار جن میں تصوف کو گوندھا گیا ہے لوگوں نے محمل قرار دیا ۔ جبکہ غالب حضرت کالے صاحب جیسے بڑے بزرگ کے مکان میں رہتے رہے اور ان سے سیکھتے رہے ۔۔
حالی لکھتے ہیں کہ ” علم تصوف میں جس کی نسبت کہا گیا ہے کہ برائے شر گفتن خوب است اس سے مرزا غالب کو خاص نسبت تھی ۔ آزاد لکھتے ہیں ” غالب مولا نا فخر الدین دہلوی کے خاندان کے بیت تھے ۔ لیکن اس سب کے باوجود غالب کو خالص صوفی شاعر نہیں کیا جا سکتا ، وہ معرفت رکھتے تھے لیکن شاعری میں تصوف کم جگہ پر دیکھنے کو ملتا ہے ، اسکی دو وجوہات تھیں ایک تو فارسی شاعری میں تصوف کو اہمیت حاصل تھی اس لیے غالب تصوف کی طرف مائل ہوۓ دوسراطبیعت بھی غم والم اور بغاوت کی طرف مائل تھی ۔ لیکن جب جب آپ نے شاعری میں صوفیانہ انداز اختیار کیا آپ نے کمال درجے تک محقق اور خدا کی ذات کو بیان کیا ۔ غالب نے اس شعر میں خدا کی خدائی کی حقیقت کو چند لفظوں میں : بیان کرنے کی سعی کی ہے جس میں وہ کامیاب بھی ہوئے ۔ ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا غالب بھی وحدت الوجود کے ماننے والے تھے ، ان کا کہنا تھا سب کچھ خدا کی ذات کا حصہ ہے انسان ، جن کائنات ، سب خدا کی ذات کا حصہ ہیں ، اور وہ اسی بات پر ایمان رکھتے ہوئے کہتے ہیں ۔ جب کہ کچھ بن نہیں کوئی موجود پھر یہ ہنگامہ اے خدا ! کیا ہے ؟ غالب خدا کے ایک ہونے پر اپنے یقین کو بھی صوفیانہ انداز میں بیان کرتے ہیں ، اور ایسے خوب بیان کرتے ہیں کہ کوئی کافر بھی سنے تو پکار اٹھے کہ ہاں خدا ایک ہے ۔ غالب کہتے ہیں ۔ ا سے کون دیکھ سکتا ہے بیگانہ ہے وہ یکتا جو دوئی کی بو بھی ہوتی تو کہیں دو چار ہو تا غالب کے دیوان کا آغاز اس شعر سے ہوتا ہے ۔ نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا کاغذی ہے پیر ہن ہر پیکر تصویر کا بعض ناقدروں نے اس شعر کو کیف شراب کا ماحاصل سمجھ کر بے معنی قرار دیا جب کہ اگر صرف استعارہ کا غذی پیرہن ‘ کو سمجھ لیا جاۓ تو شعر سمجھ آسکتا ہے ۔ ایران میں داد خواہ کاغذی پیربہن پہن کر بادشاہ کے سامنے فریاد پیش کرتے تھے ، غالب کہہ رہے ہیں کہ ہر ہر بن کاغذی دکھائی دیتا ہے بادشاہ کون ہے اور اصل اس شعر میں بھی غالب وحدت الوجود کا ذکر کر رہے ہیں ۔ صوفی کی ایک پہچان یہ بھی ہے کہ وہ بے خود ہو تا ہے ، بے نیاز ہو تا ہے ، غالب چونکہ با قائدہ یا خالص صوفی نہ تھا اس لئے وہ بے خودی کی کیفیت محسوس کرنے کے لیے مے نوشی کرتے ، ان کے لیے یہ خدا کی ذات سے رابطے کا ذریعہ تھا ۔ غالب ہر وقت اس کیفیت میں رہنا چاہتے تھے اور اپنے ایک شعر میں اس بات کا ذکر یوں کرتے ہیں ۔ مئے سے غرض نشاط ہے ، کسی رو سیاہ کو یک گونہ بے خودی مجھے دن رات چاہیے غالب خود اعتراف کرتے ہیں کہ وہ عرفان رکھتے ہیں ، وہ اپنی شاعری میں کئی بار اس بات کا ذکر کرتے پائے جاتے ہیں کہ وہ علم اور فقر کے حامل ہیں ۔ جیسا کہ اس شعر میں غالب اس بات کو بیان کر رہے ہیں ۔ ے غالب ! ندیم دوست سے آتی ہے ہوئے دوست مشغول حق ہوں بند گلی بوتراب میں غالب بہت بڑے خدا پرست اور حق شناس تھے انہوں نے خدا کو دیکھا ، جانا ، اپنی فکر کے مطابق سمجھا اور پھر اپنے اشعار میں اپنے سننے پڑھنے والوں کو بھی ان حقیقتوں سے روشناس کروایا ۔ غالب خدا کو اپنے ارد گرد پاتے ہیں وہ کہتے ہیں ۔
پارے ذرے میں ہے خدائی دیکھو تربت میں شان کبریائی دیکھو اعداد تمام مختلف ہیں باہم ہر ایک میں ہے مگر اکائی غالب خدا کی ذات کو ہر شے پہ حاوی پاتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ میں نے ہر شے کو مہر ہر پہلو سے دیکھا ، پر کھا اور سوچا لیکن آخر میں نتیجہ ایک ہی نکلا وہ سب خدا کی ذات تھی ہر جانب اللہ اللہ اور اس اللہ کا نور ہے ۔ ن یعنی اس ( ہر شے ) کے ایک ایک روپ میں دو دو سو رنگ پوشیدہ ہیں ، اور اس شے کو جتنی بار کھولو گے اتنے سینکڑوں تناسب ملیں گے ۔
خدا کی ذات ہر چیز پر حاوی ہے ۔ غالب کہتے ہیں کہ مجھ سے اکثر لوگ نالاں رہتے ہیں کہ میں نے فلاں بات کہہ دی یا فلاں بات کہہ دی لیکن میں جو کہتا ہوں وہ خود نہیں کہتا رب کی رضا سے کہتا ہوں ، کیونکہ ۔ ے ہاں اگر چه من دار اماز تست به است از چه گفتارم اماز تست یعنی کہ غالب شکایت کرنے والوں سے مخاطب ہو کر کہہ رہے ہیں کہ میری زبان کا گلہ کرنے والو سنو کہ بیشک میں زبان رکھتا ہوں اس کا استعمال بھی کر تا ہوں لیکن یہ زبان مجھے خدا نے دی ہے ، اور میں جو کچھ کہتا ہوں وہ اس کی مرضی سے کہتا ہوں کیوں کہ اس کے چاہے بغیر کچھ بھی نہیں ہو سکتا ۔ اس شعر میں بھی صوفیا الاوحدت الوجود کا تصور نظر آتا ہے ۔ اور غالب اپنے اندر موجود صوفی سے بھی آگاہ تھے ، آپ جانتے تھے کہ اپنے اندر کیا چھپائے بیٹھے تھے ۔ آپ نے برملا اظہار کیا کہ میں جانتا ہوں کہ میں حق پرست ہوں ۔ آپ نے ایک محفل میں کہا کہ میں موجود ہوں ۔ غالب یہ بھی جانتے تھے کے اگلی شراب نوشی کی وجہ سے انکو صوفی کا مقام نہیں دیا جاتا لیکن آپکو اس سے فرق نہیں پڑتا تھا وہ کہتے ہیں کہ مجھے اور صرف مجھے اپنے شعر صحیح سمجھ آتے ہیں اور کسی کو نہیں آتے اور مجھے اس بات فرق بھی نہیں پڑتا ۔ آپ بادہ نوشی کا ذکر کرتے ہوۓ ایک شعر میں کہتے ہیں کہ : ے یہ مسائل تصوف یہ تیرا بیان غالب تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا یعنی وہ جانتے تھے کہ انکی منہ نوشی انکے مقام کو بدل رہی تھی لیکن وہ اس عیش کو نچوڑ نے کے روادار نہ ہوئے صرف اس لیے انہیں شاعری میں صوفی کا مقام نہ دیا گیا اور نہ ان کی قابلیت اور عرفان بہت کم لوگوں کو نصیب ہوا ہے ۔
کلام غالب کے فکری عناصر
زندگی کے رموز و نکات ، تہذیب و ثقافت سے منسلک ہیں لیکن ادب کسی وقت یا دور کا پابند نہیں ہوتا تاہم اس کا عکس ادب میں ضرور نظر آتا ہے ۔ وہیں چند تخلیق کار اپنے وقت میں ممتاز ہوتے ہیں اور آنے والی نسلوں کے لئے مشعل راہ بھی قرار پاتے ہیں ان میں سے ایک عظیم شاعر مرزا اسد اللہ خان غالب ( 1796-1869ء ) بھی ہیں ۔
غالب کے عہد میں ہندوستان کی غیر مستحکم حکومت مغلیہ کا شیرازہ بکھر رہا تھا جس میں ہند ایرانی اثرات کی بدولت آخری سانسیں لے رہا تھا ۔ دوسری طرف ایسٹ انڈیا کمپنی کی عملداری بڑھتی جارہی تھی گو یا زندگی انقلاب کے نئے نئے تقاضوں سے ہندوستانی عوام نیرو آزما تھے ۔ ان مایوس کن حالات میں غالب نے اپنے کلام میں تخیل کی بلندی اور اپنے منفر طرز بیان سے اردو کو ایک نئی قسم کی شاعری اور فلسفہ حیات سے روشناس کروایا ، دراصل غالب کی شاعری کا تقاضہ یہ ہے کہ وہ مطالعہ کے بعد ہی سمجھ میں آتی ہے اور مرزا غالب کا کلام دنیائے ادب کی وحدت کا جزو بن گیا ہے عمومی طور پر غالب ایک مشکل پسند اور فکری شاعر سمجھے جاتے ہیں آپ بھی دیکھ لیجئے
آگہی دام شنیدن جس قدر چاہے بچھائے
مدعا اتنا ہے اپنے عالم تقریر کا