loader image

MOJ E SUKHAN

مرزا اسد اللہ خاں غالب کا فن سخن

دام شنیدن گر منی نشاط تصور اور گلشن ناآفریدہ جیسے نامانوس تراکیب کی بابت غالب کی شاعری مشکل سمجھی گئی ۔ اس طرح نادر تشبیہات اور حشر خیز خیالات کو عہد غالب میں اسی زمرہ میں رکھا گیا تھا ۔ 

 الفرض غالب کی شاعری کے تجزیہ نگاروں نے غالب کی مشکل پسندی اور ان کے خیالات کی انفرادیت کو ان کی خوش پر ستی ، انفرادیت پسندی سے تعبیر کیا جاتا رہا ، لیکن یہ مشکل پسندی در اصل جذبات و احساسات کی تہہ داری ہے ۔ ان کے گرد و پیش کے خیالات جبر و اختیار واقعات کی کشائشی اور ان کی زندگی کی تلخیاں انہیں فلسفہ زندگی کی جمالیات اور معیارات کا دوسرے ہم عصر شعراء سے الگ الگ ہے جو غور و فکر کر نے والے ادب کی بنیاد گزار بھی ہے ۔ غالب کی ایک اور ( Thinking poetry ) شناحت عطا کی جو مشکل پسندی قطری عنصر تصوف کو ملاحظہ فرمایئے : 

نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
 ڈبویا مجھ کو ہونے نے ، نہ میں ہوتا تو کیا ہوتا 

مندرجہ بالا شعر عبارت کی د شوار ترکیب ، استعارات کی پیچیدگی ، نقطہ نظر ، فلسفہ ادب اور زاویہ نگاہ کی دین ہے ۔ اسی لئے تو وہ خود کہتے ہیں ۔

ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے
 کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز بیاں اور 

غالب نے اپنی شاعری کو فکری اور فلسفیانہ رنگ روپ دیا ہے ۔ گو یا تہذیب و ثقافت کی ایک طویل ارتقائی سفر کو اپنی شاعری میں سمودیا ہے ۔ شاعری بنیادی طور پر جذ بات پر مبنی ہوتی ہے لیکن غالب کی شاعری میں خیالات اور جذبات کے ساتھ فکر بھی رواں دواں نظر آتی ہے ۔ اس فکری عنصر نے متعدد نتائج پیدا کئے ہیں ۔

 سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں 
خاک میں کیا صورتیں ہو گئی کہ پنہاں ہو گئیں

 غالب کے مطابق لالہ و گل اور کیسی کیسی حسین و جمیل صورتیں پیوندِ خاک ہو ئیں جو اپنے وقت میں بے نظیر تھیں یہ تصور غالب کی فکری حقیقت نگاری سے عبارت ہے ۔ 

وصل میں شوق وصل دیار یار تک باقی نہیں
 آگ اس گھر میں گئی ایسی کہ جو تھا جل گیا 

غم ہستی کا اسد کس سے ہو جز مرگ علاج
 شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک

 سیاہ خانے کو روشن و منور کرنے والی شمع سحر ہونے تک جلتی رہتی ہے ۔ خدا معلوم اس وقفہ میں اس پر کیا گزرتی ہو گی ایک اور خیال میں غالب محبوبہ کے ہونٹوں کی تصویر بھی اس طرح کرتے ہیں ۔ 

کتنے شیر میں ہیں تیرے اب کے رقیب
 گالیاں کھا کے بے مزہ نہ ہوا

 غالب اس شعر میں محبوب کی گالیوں کو میٹھی بولی سے تعبیر کر رہے ہیں مزید محبوب کی بے وفائی سے متعلق کہتے ہیں ۔

 یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں 
غمزہ و عشوہ و ادا کیا ہے

 بہر حال غالب کا دور سیاسی لحاظ سے ایک غیر یقینی صورتحال سے دوچار تھا لہذا اس پر آشوب زمانے کے پریشان کن حالات ان کی اقتصادی زندگی کو تہس نہس کر رکھا تھا ، غالب کی نجی زندگی کی تصاویر ان کی شاعری میں محسوس ہوتی ہے ۔ 

نقش فریادی ہے کس شوخی تحریر کا 
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا

 کرتے کس منہ سے ہو غربت کی شکایت غالب 
تم کو بہ مہریِ یاران وطن یاد نہیں

 شکوہ سنجی کی طبیعت ناب غالب کی ہر گز نہیں تھی  لیکن ہم عصروں کی چشمک ، زمانہ کی ناقدروانی ، حکومت کا زوال ، وظیفہ کی مسدودی نے غالب کی زندگی کو بد مزہ کر دیا ۔ انسانی نفسیات کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ انسان جن حالات کا شکار ہوتا ہے اس کے اثرات اس کی شخصیت پر ظاہر ہونے لگتے ہیں ۔

کیا وہ نمرود کی خدائی تھی 
بندگی سے مرا بھلا نہ ہوا 

زندگی اپنی جب اس شکل میں گزری غالب
 ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے

 غالب کا جو عملی فلسفہ حیات رہا ہے اس میں غم روزگار بھی شامل ہے ۔ بے روزگاری زندگی کے لئے ایک ناسور کی طرح تکلیف دہ شئے ہے جس سے غالب دو چار تھے ، زندگی کی اسی ویرانی کو دو مختلف مضامین میں دیکھئے ۔

 اگ رہا ہے در و دیوار سے بہترہ غالب 
ہم بیاباں میں ہیں اور گھر میں بہار آئی ہے

 کوئی ویرانی کی ویرانی ہے 
دشت کو دیکھ کر گھر یاد آیا

 غالب کے اشعار میں زندگی کی شکست و ریخت کے فکری و حقیقی عناصر کے ساتھ ان میں مادی عنصر ان کا فلسفیانہ انداز بیان ہے اس تاثر کو انہوں نے ظاہری اور باطنی معانی میں مخفی رکھا تاکہ قاری اپنی بساط اور مشاہدے کے مطابق الفاظ اور معانی کی تہہ کھولتا چلا جائے ۔

 گنجینہ معنی کا علم اس کو سجے
 جو الفاظ کے غالب مرے اشعار میں آوے 

گر خامشی سے فائدو انشائ حال ہے 
خوش ہوں کہ مر کی بات سمجھنا محال ہے

 وقت زندگی کے فیصلے صادر کرتا ہے اس حقیقت کو غالب اپنی شاعری میں ندرت فکر اور حدت بیان کے ساتھ اور موضوعات کی انفرادیت روز مرواور محاورہ کے استعمال اور منفرد منظرانہ طریقہ اظہار کی بابت غالب کی شاعری سمجھنے اور سمجھانے کی چیز بن گئی ہے ۔

 بیان کس سے ہو ظلمت گستری میرے شبستاں کی
 شب مد جو جو پنبہ رکھر میں دیواروں کے روزن میں

 میرے خیاں میں غالب کے کلام کا مطالعہ اسلوب اور فکر کی بنیاد پر کیا جانا چاہئے مشکل اور آسان کا تصور محض بے جا ہے ۔ آپ کا تصور احساسات جذبات اور تجربات کا رد عمل ہے ۔ اسی لئے غالب کی شاعری کی فہم مشاہدات اور حقائق کا فہم کا تقاضہ کرتی ہے ۔

  جہاں غالب نے اپنی شاعری میں قاری کے لئے نامانوس اجنبی تشبیہات اور استعارات ، غیر مرئی اشیا کو مرئی اشیا کی حیثیت سے پیش کیا ہے وہیں نشتریت ، کثیر المعانی خیالات ، ایجاد وابداع ، فکر و تصوف ، تصورات کی ندرت ، دقیق مطالب ، تراکیب ، مضامین الفاظ کی بندش ، معنی آفرینی ، شوخی تحریر اسلوب ، فلسفہ حیات ۔ فرض ہے کہ غالب کے بیشتر اشعار ذاتی تجربات اور عینی مشاہدات کی بنیاد پر مبنی محسوس ہوتے ہیں جس میں صداقت کی تبہ واری پنہاں ہے ، قدرتی جبر وانسان کی بے چارگی ، ظریفانہ شوشی اور طر یہ اشعار ملاحظہ فرمایئے ۔ 

پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھنے پر ناحق
 آدمی کوئی ہمارا  دمِ تحریر بھی تھا

جس پاس روزہ کھول کے کھانے کو کچھ نہ ہو
 روزہ اگر نہ کھائے تو ناچار کیا کرے

 کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے تو بہ
 ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا

غالب کی شاعری اس وقت کی رقاصاؤں نے دوران محفل گا کر امر کردی اور کچھ رقاصاؤں نے غالب کے مصرعوں کو موسیقی کے سروں میں ڈھالنے کے لیے اپنے مطلب سے تبدیلی بھی کی جس وجہ سے کچھ کلام اغلاط سے بھرا بھی دکھائی دیا جیسے

دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے
آخر اس درد کی دوا کیا ہے

اس مشہور مطلع میں غالب ایطا کر گئے جو غالب کاشیوہ نہیں تھا یہ یقینا موسیقی ترتیب دیتے وقت ایطا کا شکار ہوا یہ میرا ماننا ہے

 اس بحث کا محاصل یہ ہے کہ غالب ایک ذی شعور سخن ور تھے ۔ ان کے اشعار کی نفسیاتی اور عملی زندگی کے علاوہ ان کی نظریاتی تھیوری کو سمجھنے میں مددگار ہیں یہی وجہ ہے کہ عرصہ گزر جانے کے بعد بھی غالب حیات ہیں اپنے اشعار کی صورت

موجِ سخن

ایک تبصرہ چھوڑیں