loader image

MOJ E SUKHAN

اردو شعراء

19/04/2025 09:45

مریضِ عشق کو تیرے کہیں دوا نہ ملی

مریضِ عشق کو تیرے کہیں دوا نہ ملی
ترے مطب کے علاوہ کہیں شفا نہ ملی

دعائیں ہم نے سمیٹی ہیں لاکھ لوگوں سے
جو ماں سے ملتی تھی اکثر وہی دعا نہ ملی

سنا ہے شہر کے سارے طبیب زندہ ہیں
ہمارے درد کی لیکن کہیں دوا نہ ملی

ہمیشہ میں نے وفاؤں کا پاس رکھا تھا
وفا کے بدلے مجھے تو کہیں وفا نہ ملی

سسک رہی ہے عدالت میں ایک ہی فریاد
شریکِ جرم تھے جتنے انہیں سزا نہ ملی

امیر زادوں کے کتے بھی عیش کرتے ہیں
بلکتے بچوں کو لیکن کہیں غذا نہ ملی

یہ عدل کیسا ہے اقبال جس میں مجرم کو
رہائی ملتی ہے لیکن کبھی سزا نہ ملی

ڈاکٹر سید محمد اقبال شاہ

Email
Facebook
WhatsApp

مزید شاعری

رباعیات

غزلیات

نظم