میراث……
مری بیٹی
مجھے ہے یاد
تیری دید کا پہلا وہ پل اب تک
گلابی تولیہ میں تیرا نازک جسم لپٹا تھا
فراک اک ریشمی پہنے ہوئے تھی
رنگ اس کا بھی گلابی تھا
کرسچین نرس نے جھک کر
کہا مجھ سے
ذرا دیکھیں تو کتنا پیارا بےبی ہے
کبھی میں نے فرشتے کو نہیں دیکھا تھا
لیکن اس گھڑی ایسا لگا
جیسے فرشتہ روبرو ہو
تیری صورت میں
جو پچھلے نو مہینوں تک
مرے لب پر رہی تھی وہ دعا تھی تو
جو میری کوکھ سے ابھری تھی
وہ دلکش صدا تھی تو
مری نظریں ترے چہرے سے ہٹتی ہی نہ تھیں….
یوں لگ رہا تھا آسمان پر ذرد سورج مسکراتا ہو
بہت شدت کی گرمی میں بھی
جیسے برفباری ہو رہی ہو…. اور
مری کھڑکی سے سرما کی سنہری
دھوپ لپٹی ہو
زمیں پر نور پھیلا ہو
محبت رقص کرتی ہو
میں تجھ کو چومنے آگے جھکی
تو ایک سرگوشی
مرے نزدیک سے ابھری
سنو….. تم اپنا کوئی دکھ
کہیں ماتھے پہ اس کے لکھ نہیں دینا
کہ ہوتی آئی ہے
ماؤں کے دکھ بھی بیٹوں کو سہنے پڑتے ہیں
انہیں دنیا میں جینے کو یہی میراث ملتی ہے……
حمیرا راحت