مری داستاں کو فسانہ بنا دے
کوئی مژدہ جاں فزا پھر سنا دے
پلا کے نگاہوں سے اک جام ساقی
زمانے سے مجھ کو بیگانہ بنا دے
چراغ سحر ہوں دم واپسیں ہے
کوئی اب تو مطلب وفا کا بتا دے
میں تقدیر کا گرچہ قائل نہیں ہوں
مگر عین ممکن ہے ان سے ملا دے
سنا ہے وہ کرتے ہیں مردوں کو زندہ
مجھے مثل لعزر وہ شائد جلا دے
اقبال بسمل