Meri Her Saans Ko sab Naghma e mehfil Samjhty hain
غزل
مری ہر سانس کو سب نغمۂ محفل سمجھتے ہیں
مگر اہل دل آواز شکست دل سمجھتے ہیں
گماں کاشانۂ رنگیں کا ہے جس پر نگاہوں کو
اسے اہل نظر گرد رہ منزل سمجھتے ہیں
الٰہی کشتئ دل بہہ رہی ہے کس سمندر میں
نکل آتی ہیں موجیں ہم جسے ساحل سمجھتے ہیں
طرب انگیز ہیں رنگینیاں فصل بہاری کی
مگر بلبل انہیں خون رگ بسمل سمجھتے ہیں
پگھل کر دل لہو ہو ہو کے بہہ جاتا ہے آنکھوں سے
ستم ہے شمع کو جو زینت محفل سمجھتے ہیں
کہاں ہوگا ٹھکانا برق رفتاری ان کی وحشت کا
کہ وہ منزل کو بھی سنگ رہ منزل سمجھتے ہیں
بگولے اڑ رہے ہیں جو ہمارے دشت وحشت میں
انہیں کو اے اثرؔ ہم پردۂ محمل سمجھتے ہیں
اثر صبائی
Asar Saehbaee