غزل
نہ تو میکدے کی ہے جستجو نہ تلاش بادہ و جام ہے
جو نفس نفس کو پلا گئی مجھے اس نگاہ سے کام ہے
بس اسی خطا پہ مرے لئے مے لا لہ گوں ہے نہ جام ہے
کہ گدائیء درِ مے کدہ مری تشنگی پہ حرام ہے
نہ کرم ہے ان کا نہ برہمی نہ سحر ہے اپنی نہ شام ہے
جو اسی کا نام ہے زندگی مرا زندگی کو سلام ہے
کبھی روشنی کبھی تیرگی یہی زندگی کا نظام ہے
وہ نظر ملائیں تو صبح ہے وہ نظر چرائی تو شام ہے
تجھے چشم شوق کا واسطہ کبھی اس طرف بھی تو ساقیا
مری ہر نظر میں ہے تشنگی تری ہر نگاہ میں جام ہے
یہ حجاب جلوۂ حسن کیا مرے ذوق دید یہ رحم کھا
ذرا مسکرا کے نقاب اٹھا کہ نظر کو شوق سلام ہے
جسے کائنات نے سن لیا وہ صدا نہیں ہے کوئی صدا
جو تڑپ کے دل ہی میں رہ گیا وہی درد دل کا پیام ہے
چمن حیات کی رونقیں کوئی دیکھے میری نگاہ سے
یہ بہار اس کا ہے پیرہن یہ نسیم اس کا خرام ہے
وہ نیاز و ناز کی منزلیں کہ سجی تھیں پیار کی محفلیں
اور اب اک زمانہ گزر گیا نہ سلام ہے نہ پیام ہے
تجھے ناز یہ کہ بہ یک نظر مرے دل کو درد بنا دیا
مجھے یہ غرور کہ آج بھی مرے لب پہ تیرا ہی نام ہے
اقبال صفی پوری