loader image

MOJ E SUKHAN

اردو شعراء

20/04/2025 12:34

مرے اندر کی ویرانی نے مجھ کو مار ڈالا

مرے اندر کی ویرانی نے مجھ کو مار ڈالا
خموشی کی فراوانی نے مجھ کو مار ڈالا

پلائیں گے مجھے کیا زہر پیالہ دوست میرے
مرے طرزِ سخن دانی نے مجھ کو مار ڈالا

کہاں ھے نقطہ ء ختم ِمسافت کون جانے
سفر رستوں کی طولانی نے مجھ کو مار ڈالا

نہاں ہیں عکس اندر عکس سارے آئینوں میں
ان آئینوں کی حیرانی نے مجھ کو مار ڈالا

نہ راس آیا مجھے صحرائے ہستی میں پڑاؤ
سرابوں کی فراوانی نے مجھ کو مار ڈالا

جمی ھے تشنگی ہونٹوں پہ صدیوں کی ابھی تک
فراتِ جبر کے پانی نے مجھ کو مار ڈالا

کہاں تک آنکھ دیکھے ایک جیسے بانجھ منظر
مرے خوابوں کی ویرانی نے مجھ کو مار ڈالا

مذاقِ کرب کی معراج پا کر لمحہ لمحہ
جنوں کی حشر سامانی نے مجھ کو مار ڈالا

میسر ہی نہیں مہلت رفو کی اس سفر میں
سو ان زخموں کی عریانی نے مجھ کو مار ڈالا

بیاباں کا سفر اور دھوپ ہی زاد ۔ سفر تھی
تمازت کی اس ارزانی نے مجھ کو مار ڈالا

پروین حیدر

Email
Facebook
WhatsApp

مزید شاعری

رباعیات

غزلیات

نظم