غزل
مرے تصور میں آ رہے ہو
مجھے نشانہ بنا رہے ہو
ابھی کہانی سنی نہیں ہے
خیال اپنا سجا رہے ہو
فراق میں جو گزر گئے دن
اسی میں دل کو جلا رہے ہو
محبتوں میں وصال لازم
مجھے کہانی سنا رہے ہو
میں پہلے نادان تھی مری جاں
ابھی بھی پاگل بنا رہے ہو
مجھے خسارے میں ڈال کر تم
ضمیر اپنا بچا رہے ہو
کہیں یہ تم کو نہ مات دے دے
جو چال اپنی چلا رہے ہو
عمود ابرار احمد