غزل
مرے پس رو کو اندازہ نہیں تھا
میں رستہ تھا مگر سیدھا نہیں تھا
مجھے سورج پہ یہ بھی برتری تھی
میں روشن تھا مگر جلتا نہیں تھا
سفر کی آرزو کچھ دیدنی تھی
میں قطرہ تھا مگر رکتا نہیں تھا
جڑیں تھیں سایہ تھا پھل پھول بھی تھے
میں جتنا تھا فقط اتنا نہیں تھا
وہ لگتا تھا مگر ایسا نہیں تھا
سمندر ہی سہی گہرا نہیں تھا
بھڑک اٹھا جو تیرے آنسوؤں سے
وہ میرا زخم تھا شعلہ نہیں تھا
وہ انہونی تھی جو ہو کر رہی تھی
جو ہونا تھا وہی ہوتا نہیں تھا
کہاں کی گرمئ بازار دنیا
میں سکہ تھا مگر چلتا نہیں تھا
رحمان حفیظ