غزل
مر رہے گا اب جو تو نے آہ کی
ہے یہ خاطر میرے خاطر خواہ کی
گرچہ دل دریا سے موتی لا نہ پائے
کچھ خبر تو لائے اس کی تھاہ کی
بن گئے بازار کی توسیع ہم
اس نے کی تخلیق ہم نے چاہ کی
اس نے جھٹکا اپنے رخ سے زلف کو
میں نے اپنے شعر کی اصلاح کی
اس فرشتے نے اشارہ بھر کیا
اور مجھ شیطاں نے بسم اللہ کی
آکاش عرش