غزل
مر گیا غم میں ترے ہائے میں روتا روتا
جیب و دامن کے تئیں اشک سے دھوتا دھوتا
غیر از خار ستم کچھ نہ اگا اور کہیں
کشت الفت میں پھرا اشک میں بوتا بوتا
رفتہ رفتہ ہوا آخر کے تئیں کو مفلس
نقد کو عمر کی میں ہجر میں کھوتا کھوتا
گرچہ فرہاد تھا اور قیس جنوں میں مشہور
ایک دن میں بھی پہنچ جاؤں گا ہوتا ہوتا
چونک آصفؔ نے بنایا عجب اپنا احوال
اٹھ گیا پاس سیں تو صبح جو سوتا سوتا
آصف الدولہ