مسافر ہوں میں اب تیری گلی کا
سلیقہ آ گیا ہے دوستی کا
میں تیرے راستوں پر چل رہا ہوں
مزا آنے لگا ہے زندگی کا
ابھی تک آئنہ برہم ہے مجھ پر
بنے گا کیا مری بے چہرگی کا
میں سچے حرف لکھتا ہوں ہمیشہ
قصیدہ میں نہیں لکھتا کسی کا
اندھیرے راستہ روکے کھڑے ہیں
سفر جاری ہے لیکن روشنی کا
تعصب دشمنِ انسانیت ہے
محبت نام ہے پاکیزگی کا
ہزاروں حادثے گزرے ہیں مجھ پر
مجھے بھی تجربہ ہے زندگی کا
کسی نے مجھ کو حاصل کر لیا ہے
مری آنکھوں میں ہے چہرہ کسی کا
نثار اب رہِ نوردِ شوق ہوں میں
کوئی رستہ نہیں ہے واپسی کا
ڈاکٹر نثار احمد نثار