مسیحائی سے سخنوری کا اقبال
موج سخن پبلیکیشن سے شائع ہونے والا شعری مجموعہ
"دل مضطرب ” پر تبصرہ عرفان خانی بانی عالمی ادب اکادمی

زیست اک ایسا جنگل ہے جس کو گلشن بناتے بناتے عمریں بیت جاتی ہیں جو اس جنگل میں ہمت حوصلہ ہار گیا اسکا نام مٹ گیا اور جس نے خاردار پکڈنڈیوں سے آبلہ پائی کو صبر سے اپنے سفر کا ارداہ اور گلشن بنانے کے جزبہ کو مسلسل سفری سامان سمجھا وہ ایک نہ ایک دن جنگل کو گلشن بنانے میں کامیاب ہوگیا کچھ اسی طرح مسافت طے کرتا ہو ۓ سیدمحمد اقبال شاہ انسانی خدمات پر بطور معالج زیست کو سنوارنے لگا اور آہستہ آہستہ کومل جذبات, گلے شکوے , محبت نامے , ارمان , عشق , اپنوں کی جدائی , بچپن کے دن جوانی کے لمحات اس کے زہین پر چھانے لگے
لمحات کبھی کبھی تو زیست میں خار محسوس ہوتے ہیں کبھی کبھی گلاب , کبھی کبھی خوشبو , کبھی کبھی غم , کبھی کبھی خوشی , کبھی کبھی اداسی , کبھی کبھی تو تمام جذبات اور حساسیات کسی بگولے کی طرح خاک زادے کو ایسے جھنجھوڑتے ہیں کہ زہن کے جنگل کی حدوں سے باہر نکلنے شروع ہو جاتے اور یہی وہ لمحات ہیں جن کو انسان کسی کو بتاتا نہیں بلکہ قلم کے زریعہ سے زیست کے احوال , مشاہدہ , مشکلات , آسانیاں یعنی دل و دماغ جن کو
جھنجوڑ جھنجوڑ کہتا ہوں کہ دل مضطرب سے منسوب کردو ایسا کچھ سید اقبال شاہ کی قلبی واردات نے عمل کیا کہ وہ دل مضطرب کی شکل میں سخنوری کا اقبال حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا مسیحائی سے انسانوں کا معالج بنا اور انسانوں کے دکھ تکلیف , پریشانیوں کے مشاہدہ کو بروۓ کار لاتے ہوۓ سخنوری کرنے لگا یوں وہ
صورتِ "دل مضطرب ” سے بھی نہ صرف مسکراہٹیں بلکہ دکھی دلوں کا سخنوری سے بھی علاج پر معمور ہوگیا
پروفیسر سید محمداقبال شاہ ڈاکٹری کے پیشہ سے منسلک ہے اور حیدرہ آباد کا رہائشی ہے حیدر آباد ادب کے حوالہ سے زرخیز ترین علاقہ ہے یوں حیدر آباد کی زرخیزی میں ایک نۓ سخنور کو انداز بیاں اور اسلوب وارثت میں ہی ملا جس کی وجہ سے وہ بہت جلد منظر عام پر آ گیا
” دل مضطرب” سید اقبال شاہ کا پہلا شعری مجموعہ ہے ۔ اس مجموعہ میں ہر اس کیفیئت کا اسلوب ملتا ہے جس میں حساسیئت کی جھلک ملتی ہے , سادہ اسلوب , بیانہ , اشعار کی نشست و برخاست , روائیت , جدت , اداسی , سلاست , عشق مجازی , عشق حقیقی , رواداری , حسن و زیبائش , محبت , شگفتہ مزاجی , برجستگی , آہ و پکار , خواب , تعبیر خواب , گل و لالہ کا رنگ , لمحہ فکریہ , معاشرتی گراوٹ , جیسے خیالات کثرت سے ملتے ہیں ایسے اشعار جو اپ کو اپنے لگیں اور اپ کہہ اٹھیں
میری آنکھیں سمندر تو نہیں تھیں
میں اس کی یاد میں روتا کہاں تک
احسان مند ہوں میں تہہِ دل سے ہم نفس
تو نے محبتوں کو تماشا بنا دیا
یہی نہیں بلکہ زیست کے جنگل میں دوران سفر کہتا ہے ۔
تھک چکا ہوں میں بہت دشت کی ویرانی سے
اے خدا میرے لئے دشت گلستاں کر دے
دور حاضر کا لمحہ فکریہ کا شعر دیکھیں
بلا کا قحط ہے شہر وفا کی گلیوں میں
یہ سوکھے پھول کتابوں میں دھر نہیں سکتے
۔چند ایک اور اشعار اپکی زوق کے لۓ
آو اقبال زرا گن کے تو دیکھیں دل پر
زخم کتنے ہیں نۓ اور پرانے کتنے
لکھا نصیب کا کوئی مٹا سکا ہے کہاں
بچھڑنا اس کا بھی گویا کے اک بہانا تھا
بلند جن کا ہو اقبال وہ کسی صورت
کبوتروں کے پروں کو کتر نہیں سکتے
امیر زادوں کے کتے بھی عیش کرتے ہیں
بلکتے بچوں کو لیکن کہیں غذا نہ ملی
غرض یہ کہ شاعر اپنا مدعا بیان کرتے ہوۓ کہتا ہے
زندگی اک فسانہ تھی فسانہ ہی رہی
داستاں ختم ہوئی مرکزی کرادر کے بعد
مسحائی نے فسانے کو سخنوری کا پہرہن دے کر زیست کے جنگل کو آخر گلستاں کر دیا ۔پرفیسر ڈاکٹر سید محمد اقبال شاہ کو ان کے پہلے شعری مجموعہ اشاعت پر مبارکباد پیش کرتا ہوں
مجھے امید ہے کہ دوسرا ادبی سفر اس سے بھی عمدہ اشعار پر مشتمل ہو گا ان شاء اللہ
عرفان خانی