غزل
مشہور ہے جہاں میں اگرچہ جفائے گل
سو جانیں ہوں تو کیجیے اس پر فدائے گل
جاتا ہے مثل بو کے یہ دل اڑا ہوا
کیوں کر بھلا نہ ہوں میں کہو مبتلائے گل
سرسبز گل کی رکھے خدا ہر روش بہار
اے باغباں نصیب ہو تجھ کو بلائے گل
گلزار اس کے داغ سے سینہ مرا ہوا
کہو مرے مزار پر کوئی نہ لائے گل
اس بلبل اسیر کی حسرت پہ داغ ہوں
مر ہی گئی قفس میں سنی جب صدائے گل
گلچیں و باغباں کو کہاں اس کی قدر ہے
بلبل کے دل سے پوچھئے جس وقت آئے گل
کچھ آرزو سے کام نہیں عشقؔ کو صبا
منظور اس کو ہے وہی جو ہو رضائے گل
خواجہ رکن الدین عشق