Maslehat Ka Dhaga
نظم
مصلحت کے دھاگے نےہونٹ جب سیے میرے
تو میری سماعت کو اور مری بصارت کو
مصلحت کے دھاگے نے قوتیں عطا کردیں
جس نے مجھ کو دکھلائیں رات کے اندھیروں کی
ایسی ایسی تصویریں ایسی ایسی تحریریں
جن کو دیکھ کر پڑھ کر خود پہ ہنس رہا ہوں میں
اور میرے کانوں میں جو سماعتیں آئیں
ان سماعتوں میں تو ہچکیاں تھیں آہیں تھیں
بے بسی کے عالم میں حوصلے کی باتیں تھیں
آج میری آنکھوں نے پھر کسی کی بیٹی کو
ہر طرف ہواؤں میں ہر کسی کی باتوں میں
موت اوڑھ کر پھر سے ہائے مرتے دیکھا ہے
ہائے مرتے دیکھا ہے
عزتوں کے یہ قاتل کون ہیں کہاں پر ہیں
کیا کسی نے ایسا کچھ ایک پل کو سوچا ہے
میرے آنسوؤں نے تو یہ مجھے بتایا ہے
عدل اس کا قاتل ہے یہ نظام قاتل ہے
آپ اس کے قاتل ہو میں بھی اس کا قاتل ہوں
رہبرانِ ملت بھی قاتلوں میں شامل ہیں
عسکری ادارے بھی سارے اس کے قاتل ہیں
اور نہیں ہے تو قاتل بس وہی اکیلا ہے
کھیل جس نے یہ وحشی چھپ کے سب سے کھیلا ہے
وقت کی پکڑ اس پر آئے گی یہ لازم ہے
جرم کو بھی مانے گا ہاں مگر یہی سچ ہے
مصلحت کا یہ دھاگہ عدل کو جکڑ لے گا
اور پھر یہی قاتل ہائے چھوٹ جائے گا
ہائے چھوٹ جائے گا
نسیم شیخ
Naseem Shaikh