مطافِ کعبہ اقدس میں نعتِ مصطفےٰ مانگوں
خدائے روز و شب سے اور مانگوں بھی تو کیا مانگوں
مدینے کے جزیرے پر مری کشتی ہے آ پہنچی
خزانہ سامنے ہو تو بھلا نقشہ میں کیا مانگوں
مرا مقصود کب ہے مال و دولت کی فراوانی
مدینے میں سکونت کا اقامہ اے خدا مانگوں
میں شہرِ علم کی دہلیز پر اے قادر مطلق
ردائے علم میں لیٹے ہوئے ارضِ و سما مانگوں
میں کتنا خود غرض ہوں امتی سلطانِ طیبہ کا
کبھی تاجِ انا مانگوں کبھی خاکِ شفا مانگوں
مجھے رکھنا حصارِ عجز میں اے داورِ محشر
بوقتِ عدل بھی تجھ سے حروفِ التجا مانگوں
سوا نیزے پہ آ کر آگ برسانے لگا سورج
خدائے شہرِ طیبہ کی خنک آب و ہوا مانگوں
مہذب ساعتیں پھر لوٹ آئیں یا رسول اللہ
درندوں کا میں اپنی سر زمیں سے انخلا مانگوں
مجھے تفہیم کے لعل و جواھر کی ملے تابش
بیاضِ نعت کے ہر ہر ورق کا حاشیہ مانگوں
میں اربابِ قلم سے یا حبیب اللہ سر مکتب
خلافِ علم و دانش ہر عمل پر تبصرہ مانگوں
مرے آباء نے یہ تاکید کر رکھیّ ہے صدیوں سے
محمد کے وسیلے سے ہمیشہ ہر دعا مانگوں
جہاں لمحے درودِ پاک کا خیمہ لگاتے ہیں
اُسی خیمے کے اندر میں شب غارِ حرا مانگوں
ریاضِ خوشنوا کو بھی رعایا میں رکھیں شامل
محمد کی غلامی کی خدا سے انتہا مانگوں
ریاض حسین چودھری