کہانی معصوم سوال
تحریر مہوش اشرف
ناشتے کی میز پر صولت صاحب اخبار پڑھنے میں مصروف تھے۔ ان کی لاڈلی بیٹی ایشال سفید اسکول یونی فارم میں ملبوس ناشتے کی میز پر ہاتھ میں دودھ کا گلاس تھامے، دودھ پی رہی تھی۔ دوران ناشتہ وہ آنکھوں میں جگنوں کی سی چمک لئے صولت صاحب کی جانب ہی دیکھ رہی تھی۔ صولت صاحب نے بھی اخبار ایک جانب رکھا اور ایشال سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا:
”ایشال بیٹا! آج ہیٹ اسٹروک کا خطرہ ہے اخبار کچھ اچھی خبر نہیں دے رہا۔ گرمی بہت زیادہ ہے، بہتر ہے کہ آپ اسکول سے چھٹی کر لو۔“
”جی بابا! گرمی تو بہت ہے، پر آج میرا سائنس کا ٹیسٹ ہے۔“ بارہ سالہ ایشال نے جواب دیا۔وہ ساتویں جماعت کی طالبہ تھی۔
فاطمہ بیگم نے چائے کی پیالی صولت صاحب کی جانب بڑھاتے ہوئے کہا: ”ایسا کیجئے کہ آج آپ دونوں گھر پر رہیں ویسے بھی ٹی وی پر بار بار بتایا جا رہا ہے کہ بلا ضرورت گھر سے نہ نکلا جائے۔“
”فاطمہ! بلا ضرورت کہاں نکل رہے ہیں ہم، مجھے روزگار کھینچ رہا ہے اور ہماری بیٹی کو علم۔”
”او آر ایس ڈال دیا ہے پانی میں تھوڑی تھوڑی دیر سے لیتے رہنا۔“
فاطمہ بیگم نے تھرمس ایشال کو تھماتے ہوئے پیار سے کہا.
”اللہ کی امان میں رہیں آپ دونوں۔“ فاطمہ بیگم نے دعا دیتے ہوئے صولت صاحب اور ایشال کو رخصت کیا۔
”اور آپ بھی میری پیاری مما۔“ ایشال نے مما کے گلے میں بانہیں ڈالتے ہوئے کہا۔
اسکول سے واپسی پر گھر آتے ہوئے، ایشال ٹیسٹ رزلٹ سے بہت خوش تو تھی لیکن بلا کی گرمی اُسے پریشان کر رہی تھی۔
گھر میں داخل ہوتے ہی جیسے اس کی ساری ہمت جواب دے گئی اور پسینے میں شرابور ایشال صوفے پر ڈھیر ہوگئی۔
”ایشال بیٹا! یہ لو ٹھنڈا میٹھا تمہارا پسندیدہ املی آلو بخارے کا شربت“. مما نے شربت کا گلاس ایشال کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔
شربت بہت مزیدار تھا ایک ہی سانس میں ایشال سارا گلاس خالی کر گئی۔
”ایشال بیٹا! کیسا رہا ٹیسٹ“؟ مما نے سکون کا سانس لیتی ایشال سے پوچھا۔
”مما ٹیسٹ تو شاندار رہا الحمدللہ مگر یہ گرمی جان کو آئی ہوئی ہے۔“ ایشال نے قدرے پریشانی سے جواب دیا۔
”چلو یہ تو اچھا ہوا کہ ٹیسٹ اچھا ہوگیا اب آپ فریش ہو جائیں باقی باتیں کھانے کی ٹیبل پر کرتے ہیں انشاء اللہ۔“
بکھرے بال ایشال کو خاصہ پریشان کر رہے تھے۔
”مما مما! کہاں ہیں آپ؟“ ایشال ہاتھ میں گنگھا تھامے کچن کے دروازے پر جا کھڑی ہوئی جہاں فاطمہ بیگم دوپہر کا کھانا میز پر رکھنے کی تیاری میں تھیں۔
”کیا بات ہے ایشال بیٹا کیوں سارا گھر سر پر اٹھایا ہوا ہے؟“ فاطمہ بیگم نے ایشال پر پیار بھری نگاہ ڈالتے ہوئے پوچھا۔
”مما اتنی گرمی اور دیکھیں نا
یہ بال سمٹتے ہی نہیں مما آپ کیسے بنا لیتی ہیں اتنا پیارا جوڑا بھلا ؟؟؟۔“ ایشال نے قدرے پریشانی سے استفسار کیا۔
ایشال کے معصوم سوال پر مما مسکرا دیں۔
”ادھر بیٹھوں ایشال بیٹا کنگھا مجھے دو، آج ایک راز کی بات بتاتی ہوں۔
”بیٹا! بال رشتوں کی طرح ہوتے ہیں ان کے ساتھ محبت اور شائستگی سے پیش آنا چاہیے ورنہ یہ الجھ جاتے ہیں معاملہ سلجھانے میں پھر بڑی دقت ہوتی ہے۔ بیٹا! بالوں میں تیل پیار کی چاشنی جیسا ہوتا ہے وقتاً فوقتاً ڈالتے رہنا چاہئے اس سے معاملہ الجھتا نہیں ہے۔“
یہ لو پیارا سا جوڑا بھی بن گیا۔
ایشال کو اپنے معصوم سوال کا جواب بھی مل چکا تھا۔
مہوش اشرف