ملال ہے کہ اب کوئی ملال کیوں نہیں رہا
یہ تو بھی سوچ تو مرا سوال کیوں نہیں رہا
نئی محبتوں میں وہ روایتیں کہاں گئیں
یہ اب تجھے قبیلے کا خیال کیوں نہیں رہا
ہر ایک بات مان لی تو کہہ دیا جناب نے
کوئی تو بات ہے کہ بات ٹال کیوں نہیں رہا
یہ اب کی بار پھول مجھ کو پھول کیوں نہیں لگے
کبھی جو تھا بہار کا جمال کیوں نہیں رہا
نئے تعلقات میں صغیر کے ہی تذکرے
وہ اپنے دل سے اب مجھے نکال کیوں نہیں رہا
(صغیر احمد صغیر)