غزل
ملا ملا کے نظر مسکرائے جاتے ہیں
وہ چشم مست کا جادو جگائے جاتے ہیں
ہم اپنی مشق تصور کی دستگیری سے
نقاب رخ سے کسی کے اٹھائے جاتے ہیں
رقیب کیا ستم ناروا کہ سہہ نہ سکے
کسی کی بزم میں ہم کیوں بلائے جاتے ہیں
کسی کے ناز کی تصویر کھنچتی جاتی ہے
سر نیاز ہم اپنا جھکائے جاتے ہیں
وہ بھولے جاتے ہیں طرز جفائے بے جا کو
ہم اپنا زور وفا آزمائے جاتے ہیں
ہمارا قصہ ہمارا سمجھ کے کب سنتے
بدل کے نام ہم ان کو سنائے جاتے ہیں
وہ اپنے تذکرۂ حسن سے ہیں خوش بیدلؔ
انہیں غزل پہ غزل ہم سنائے جاتے ہیں
بیدل عظیم آبادی