ملی پرسوں نظر انکی تو کل ہوٹل میں کھانا تھا
ترس جاتے تھے ملنے کو ہمارا کیا زمانہ تھا
تھا جب تک حسن با پردا فضا میں پارسائی تھی
وجود زن زمانے میں حیا کا اک خزانہ تھا
اسے بھی چاہ تھی میری مگر سنگدل وہ ایسی تھی
کہ اس کا شوق رستوں کو مرے مشکل بنانا تھا
جو ٹوٹا دل رقیبوں کا بھلا میری خطا کیا ہے
تمہارے راز سے اک دن یہ پردا تو ہٹانا تھا
میں اپنی بزم کی تشہیر اس مقصد سے کرتا ہوں
بلانا تھا بلانا تھا فقط انکو بلانا تھا
میری قسمت جو میں نے ہوش کھویا دیکھ کر ان کو
انہیں تو رات بھر اب چاندنی میں ہی نہانا تھا
تماشا کر چکے اشرف ذرا خاموش بھی ہو اب
جو غافل ہوگئے ان کو تمہیں ہی کیوں جگانا تھا
اشرف بابا