مل بیٹھنے کے سارے قرینوں کی خیر ہو
اس کارواں سرا کے مکینوں کی خیر ہو
ٹھہراؤ پانیوں میں ہے کتنا عجیب سا
دریا کے خوش خرام سفینوں کی خیر ہو
ہر خواب کے سفر میں مرے پاؤں کے تلے
آ کر کھسکنے والی زمینوں کی خیر ہو
کر ایک لمحہ سکھ کا مرے روز و شب کو دان
تیرے تمام سال مہینوں کی خیر ہو
دم سے انہی کے اپنے در و بام ہیں بلند
میرے وطن کے خاک نشینوں کی خیر ہو
شبنم شکیل