غزل
ممکن ہے پھر تلافئ مافات ہو نہ ہو
آ جا کہ اس کے بعد کوئی بات ہو نہ ہو
شاید کہ زیست سانس بھی لینے نہ دے ہمیں
شاید کہ اس کے بعد ملاقات ہو نہ ہو
اب تک تو آنسوؤں کی جھڑی ہے لگی ہوئی
پھر کون جانتا ہے کہ برسات ہو نہ ہو
اک اپنے جیتے جی ہو چراغاں کا اہتمام
مرنے کے بعد پھر کوئی بارات ہو نہ ہو
دو چار جام پی لو عزیزو کہ کیا خبر
ساقی کی ہم پہ چشم عنایات ہو نہ ہو
یہ بیکسی کی رات غنیمت ہے فیضؔ جی
پھر سے یہ بیکسی کی کبھی رات ہو نہ ہو
فیض تبسم تونسوی