منافقت کی سیاہی کو دور کرتے ہوئے
میں بجھ گئی ہوں یہاں صبحِ نور کرتے ہوئے
یہ لوگ فہم و فراست سے ماورا ہیں ابھی
میں تھک نہ جاؤں انہیں باشعور کرتے ہوئے
مرے مزاج کی سختی سے تُو نہیں واقف
تُو گر پڑے گا مجھے چُور چُور کرتے ہوئے
امیرِ شہر کو فرعون ہی نہ کردیں لوگ
یہ ہاتھ باندھے ہوئے ، ” جی حضور” کرتے ہوئے
وہی انا پہ مری ، قہقہے لگاتا ہے
پسند آئی جسے میں غرور کرتے ہوئے
مری تو جان پہ بن آئی دشتِ وحشت میں
یہ چند مِیل کا رستہ عبور کرتے ہوئے
میں آفتاب سے کم روشنی نہیں رکھتی
کبھی تُو دیکھنا مجھ کو ظہور کرتے ہوئے
کومل جوئیہ