غزل
منت گزار راہزن و راہبر نہ تھے
ہم کب حریف گردش شام و سحر نہ تھے
طوفان باد و غم سے بھی زیر و زبر نہ تھے
آخر ہم آدمی تھے چراغ سحر نہ تھے
گزرے رہ جنوں سے بہت کارواں مگر
وہ چوٹ کھا گئے جو وسیع النظر نہ تھے
اہل وفا نے منزل مقصد کو پا لیا
وہ بد نصیب تھے جو شریک سفر نہ تھے
اللہ رے تضاد یقین و گمان شوق
ہم معتبر نہ تھے کبھی تم معتبر نہ تھے
کب اہل دل کو درد میں راحت نہیں ملی
کب حادثات مرہم زخم جگر نہ تھے
اب تک وہی ہے تیرگیٔ شام زندگی
بسملؔ مہہ و نجوم سفیر سحر نہ تھے
بسمل آغائی