منزلوں سے بیگانہ آج بھی سفر میرا
رات بے سحر میری درد بے اثر میرا
گمرہی کا عالم ہے کس کو ہم سفر کہیے
تھک کے چھوڑ بیٹھی ہے ساتھ رہ گزر میرا
وہ فروغ خلوت بھی انجمن سراپا بھی
بھر گیا ہے پھولوں سے دامن نظر میرا
اب ترے تغافل سے اور کیا طلب کیجے
شوق نا رسا میرا عشق معتبر میرا
دور کم عیاری ہے کچھ پتہ نہیں چلتا
کون میرا قاتل ہے کون چارہ گر میرا
ناگزیر ہستی ہیں فصل گل کے ہنگامے
شوزش نمو تیری فتنۂ شرر میرا
کچھ بتاؤ تو آخر کیا جواب دوں اس کو
اک سوال کرتا ہے روز مجھ سے گھر میرا
آسماں کا شکوہ کیا وقت کی شکایت کیوں
خون دل سے نکھرا ہے اور بھی ہنر میرا
دل کی بے قراری نے ہوش کھو دیے تاباںؔ
ورنہ آستانوں پر کب جھکا تھا سر میرا
غلام ربانی تاباں