منورجہاں منور کا شعری سفر
تحریر ناز مظفر آبادی
شاعری جذبوں کی زبان ہے۔ ولیم شیکسپیئرنے کہا ہے،کہ,, اگر شاعری نہ رہی تو جذبے گونگے ہوجائیں گے،،۔
اچھا شعر دل سے دل کا سفر خود بخود کرتا ہے،اُسے کسی ذریعے اور سہارے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ شاعری حالات و واقعات کی ترجمان ہوتی ہے،یہ ماحول اور معاشرے کی ترجمان ہوتی ہے۔
1۔آبگینہ ِخیال(غزلیات) 2۔گل ہائے رنگ رنگ(غزلیات)
3۔زندگی گلزار ہے(غزلیات)4۔نگار ستانِ منور(غزلیات)
5۔گنگناتی فضا(نظمیں)6۔ رنگِ عقیدت (حمد،نعت،سلام)7۔منزل عشق(نعتیہ مجموعہ)8۔بہشتِ تصور(حمد،نعت،منقبت،)
9۔صراطِ معرفت(حمد،نعت،منقبت،سلام)
مندرجہ بالا یہ تمام نادر کتب ممتاز شاعرہ منور جہاں منور کی تخلیقات ہیں۔
سیدہ منورجہاں زیدی منوروطنِ عزیز سے دور غیر اردو ملک میں بیٹھ کر اپنی قومی زبان کی ترویج و ترقی میں ہمہ تن مصروف ہیں۔وہ بسیار گواور قادرالکلام شاعرہ ہیں۔وہ ہر صنف سخن میں سہولت اور مہارت سے شعر کہتی ہیں۔
اِس تمہیدکی وجہ اِن کی آنے والی نئی کتاب,,شہنائی،، ہے،جسے خوب صورت کتابیں چھاپنے والامعروف اشاعتی ادارہ,,موجِ سخن اشاعت گھر کراچی،،شائع کرنے کا اہتمام کر رہا ہے۔مجوعہ ہذا کا,,پی ڈی ایف،،ممتا زشاعر و ادیب اور ہمارے دوست جناب نسیم شیخ نے بھیجا ہے،موجِ سخن اشاعت گھر کرا چی اِ ن کا ہی اشاعتی ادارہ ہے۔
منور جہاں منور کا زیر نظر مجموعہ,,شہنائی،،غزلیات پر مشتمل ہے۔
وہ بنیادی طور پر غزل کی شاعرہ ہیں،ان کی غزلوں کے چار ضخیم مجموعے,,آبگینہِ خیال،،گل ہائے رنگ رنگ،،زندگی گلزار ہے،،اور,, نگارستانِ منور،،شائع ہوکر مقبول ِ عام ہوچکے ہیں۔ غزل جسے اصنافِ سخن کی ملکہ تسلیم کر لیا گیا ہے،غزل میں ان کے جوہر خوب کھلتے ہیں۔غزل کہنا اتنا آسان بھی نہیں،غزل محض چند اشعار کا مجموعہ نہیں ہوتی،اس میں معنی آفرینی کا ایک جہاں آباد ہوتا ہے۔ منور جہاں منور سہولت سے غزل کہتی ہیں۔
ان کا اسلوب واضع اور جداگانہ ہے، آواز توانا اورمنفردہے،لہجے کی انفرادیت ان کو معاصرین سے ممتاز کرتی ہے۔انسان بیک وقت دو دنیاؤں میں رہتا ہے۔ایک داخلی دنیا اور ایک خارجی دنیا ہے۔داخلی دنیا جسے عالم النفس کہا جاتا ہے۔انسان کے تمام ذہنی وقلبی احساسات و جذبات داخلیت کی ترجمانی کرتے ہیں۔دوسرے لفظوں میں انسان کے باطن میں برپا ہونے والے جذبات کے طوفان کا نام داخلیت ہے۔منور جہاں کی غزل میں داخلیت پسندی کا رجحان شدت سے ملتا ہے،یہاں تک کہ وہ اس شدت میں خود سے لڑنے لگتی ہیں،مگر اس لڑائی میں کہیں بھی ابلاغ کا مسئلہ پیدا نہیں ہونے دیتیں۔ان کی غزل کی یہ بڑی خوبی ہے،کہ ان کے اشعار میں ابہام کو دخل اندازی کی اجازت نہیں ہے۔وہ اپنی غزلوں میں جذباتی مسائل بڑی خوبصورتی اور سلیقے کے ساتھ بیاں کرتی ہیں۔اس طرح ان کی شاعری میں ان کا عہد بولتا ہے۔انہوں نے داخلیت کا بھر پور اظہار کیا ہے۔
ایک غزل کے کچھ تاثراتی اشعار دیکھتے ہیں۔۔
میں ساون میں رہی پیاسی، بتاؤ تم کہاں پر تھے
بھرے گھر میں میں تنہا تھی،بتاؤ تم کہاں پر تھے
وہ بنیادی طور پر غزل کی شاعرہ ہیں،ان کی غزلوں کے چار ضخیم مجموعے,,آبگینہِ خیال،،گل ہائے رنگ رنگ،،زندگی گلزار ہے،،اور,, نگارستانِ منور،،شائع ہوکر مقبول ِ عام ہوچکے ہیں۔ غزل جسے اصنافِ سخن کی ملکہ تسلیم کر لیا گیا ہے،غزل میں ان کے جوہر خوب کھلتے ہیں۔غزل کہنا اتنا آسان بھی نہیں،غزل محض چند اشعار کا مجموعہ نہیں ہوتی،اس میں معنی آفرینی کا ایک جہاں آباد ہوتا ہے۔ منور جہاں منور سہولت سے غزل کہتی ہیں۔
ان کا اسلوب واضع اور جداگانہ ہے، آواز توانا اورمنفردہے،لہجے کی انفرادیت ان کو معاصرین سے ممتاز کرتی ہے۔انسان بیک وقت دو دنیاؤں میں رہتا ہے۔ایک داخلی دنیا اور ایک خارجی دنیا ہے۔داخلی دنیا جسے عالم النفس کہا جاتا ہے۔انسان کے تمام ذہنی وقلبی احساسات و جذبات داخلیت کی ترجمانی کرتے ہیں۔دوسرے لفظوں میں انسان کے باطن میں برپا ہونے والے جذبات کے طوفان کا نام داخلیت ہے۔منور جہاں کی غزل میں داخلیت پسندی کا رجحان شدت سے ملتا ہے،یہاں تک کہ وہ اس شدت میں خود سے لڑنے لگتی ہیں،مگر اس لڑائی میں کہیں بھی ابلاغ کا مسئلہ پیدا نہیں ہونے دیتیں۔ان کی غزل کی یہ بڑی خوبی ہے،کہ ان کے اشعار میں ابہام کو دخل اندازی کی اجازت نہیں ہے۔وہ اپنی غزلوں میں جذباتی مسائل بڑی خوبصورتی اور سلیقے کے ساتھ بیاں کرتی ہیں۔اس طرح ان کی شاعری میں ان کا عہد بولتا ہے۔انہوں نے داخلیت کا بھر پور اظہار کیا ہے۔
ایک غزل کے کچھ تاثراتی اشعار دیکھتے ہیں۔۔
میں ساون میں رہی پیاسی، بتاؤ تم کہاں پر تھے
بھرے گھر میں میں تنہا تھی،بتاؤ تم کہاں پر تھے
وہ جب بادِ بہاری سے امنگوں پر شباب آیا
میں اک اک پھول کو ترسی، بتاؤ تم کہاں پر تھے
اچانک سوتے سوتے چونک جاناخود سے ڈر جانا
مری ہر شب یونہی بیتی،بتاؤ تم کہاں پر تھے
منور جہاں کی غزل میں ہر رنگ موجود ہے۔ان کی غزلوں سے اشعار کا انتخاب بہت مشکل ہے،اگر یہ کہا جائے کہ ان کا پورا کلام انتخاب ہے تو یہ بے جا نہ ہوگا۔
بات کیا ہے وہ تجلی جو سرِ طور نہیں
عشق مجبور سہی حسن تو مجبور نہیں
چارہ گر بہرِ خدا چھوڑ دے فکرِ درماں
بھر سکے وقت کا مرہم یہ وہ ناسور نہیں
غزل میں موضوعات کی کوئی قید نہیں ہوتی۔سیدہ منور جہاں زیدی کی غزل میں موضوع کا تنوع خاصے کی چیز ہے،وہ کسی بھی مضمون کو شعر میں ڈھالنے کے فن میں طاق نظرآتی ہیں۔۔
سو جھے نہ کوئی راستہ تارِ نظر شکستہ پا
آدھا سفر ہواؤں پر آدھا سفر شکستہ پا
وہ تو نکل گیا کہیں راہِ وفا کو چھوڑ کر
کرنا پڑی ہے طے مجھے غم کی ڈگر شکستہ پا
مجھے یقین ہے یہ بہترین کتاب اردو ادب میں اضافہ ثابت ہوگی۔ان شاء اللہ۔
ناز مظفرآبادی۔الغزال منزل
شوکت لائنز مظفرآباد۔ کشمیر