من کے مندر میں ہے اداسی کیوں
نہیں آئی وہ دیو داسی کیوں
۔
ابر برسا برس کے کھل بھی گیا
رہ گئی پھر زمین پیاسی کیوں
۔
اک خوشی کا خیال آتے ہی
چھا گئی ذہن پر اداسی کیوں
۔
زندگی بے وفا ازل سے ہے
پھر بھی لگتی ہے باوفا سی کیوں
۔
ایسی فطرت شکار دنیا میں
اتنی انسان نا شناسی کیوں
۔
کیوں نہیں ایک ظاہر و باطن
آدمی ہو گئے سیاسی کیوں
۔
غم گساری خلوص مہر و وفا
ہو گئے ہیں یہ پھول باسی کیوں
۔
اک حقیقت ہے جب وطن کی طلب
پھر محبت کریں قیاسی کیوں
۔
یہ ملاقات یہ سکوت یہ شام
ابتدا میں یہ انتہا سی کیوں
۔
ملنے والے بچھڑ بھی سکتے ہیں
تیری آنکھوں میں یہ اداسی کیوں
سحر انصاری