Mosim e Dasht ka kuch rang o samar rehnay day
غزل
موسمِ دشت کا کچھ رنگ و ثمر رہنے دے
بال سلجھا نہ ابھی گردِ سفر رہنے دے
کوئی عرفانِ فلک دے نہ ہی ادراکِ زمیں
بس جو تھوڑی ہے مجھے اپنی خبر رہنے دے
ایک صحرا کی نگاھوں میں چبھن رہتی ہے
نم تو درکار ہے تھوڑا سا ، مگر رہنے دے
اْس طرف جا کے جو برسیں تو بہت برسیں گیں
وہ گھٹائیں جو اِدھر ہیں ، تو اِدھر رہنے دے
توڑ دینا تو اسے وقتِ مقرر پہ مگر
وعدہِ وصل ابھی پیشِ نظر رہنے دے
کچھ ستاروں سے ملاقات کا وعدہ ہے مرا
سو اے صیاد ابھی کاٹ نہ پر رہنے دے
آتشِ شوق بجھانے دے اسی آتش سے
دو گھڑی اور صدف . لب پہ شرر رہنے دے
علی صدف
Ali Sadaf