غزل
موسم اچھا ہے رت سہانی ہے
میرے لب پر تری کہانی ہے
دکھ ہو یا سکھ ہو جھیلنا ہے اسے
زندگانی تو زندگانی ہے
آج بادل ہیں باد و باراں ہے
ہاتھ میں جام ارغوانی ہے
جس نے سرشار عمر بھر رکھا
زاہدو وہ میری جوانی ہے
لوگ کہتے ہیں زندگی جس کو
ایک قصہ ہے اک کہانی ہے
زندگی ایک صید ہے جس کی
تاک میں مرگ ناگہانی ہے
شعر کیا زندگی کا نغمہ ہیں
میں ہوں اور میری گل فشانی ہے
دل کی ہیں واردات شعر مرے
مرثیہ ہے کہ نوحہ خوانی ہے
حسن سے عمر بھر کا یارانہ
حسن تو میرا یار جانی ہے
میں سمجھتا ہوں زندگی ہے امر
لوگ کہتے ہیں زیست فانی ہے
فیضؔ اب تو سنبھل نہیں پاتے
ناتوانی سی ناتوانی ہے
فیض تبسم تونسوی