مِرا رِزقِ مسافت میری خاکستر سے آگے تھا
سو میرا حوصلہ بھی میرے بال و پر سے آگے تھا
مری آنکھوں میں منظر کی کوئی وقعت نہ تھی یوں بھی
کہ جو کچھ دید کے قابل تھا وہ منظر سے آگے تھا
جنوں طاری تھا مُجھ پر سوچنے، بے خواب رہنے کا!
اور اُس میں کرب سہنا راحتِ بستر سے آگے تھا
دریچہ خواب کا مجھ پر کھُلا تو میں نے یہ دیکھا
کہ میرا اپنا سایا ہی مرے پیکر سے آگے تھا !
مجھے ڈالا ہؤا تھا میری بے تابی نے مشکل میں
مَیں اُس در سے کبھی پیچھے ، کبھی اُس در سے آگے تھا
مجھی پر تیر چلنا تھے، مجھی کو زخم لگنا تھے
کہ مَیں اپنے نہایت سُست رَو لشکر سے آگے تھا !
بھلا تاریخ کو یکسر اُلٹ دینا کہاں ممکن؟
مگر یوں ہے کہ پس منظر یہاں منظر سے آگے تھا
نسیم اتنے سفر لکھے ہوئے تھے میری قسمت میں
کہ میرا جو قدم تھا اپنے بام و در سے آگے تھا
(نسیمِ سحر)