مٙیں ہاتھ دیوار پر رکھوں تو وہیں سے اِک دٙر نکالتا ہوں
جُھکے سٙروں کو بغور دیکھو کہ اِن میں، مٙیں سٙر نکالتا ہوں
ابھی میں چھوٹا تھا جب عقابوں نے مجھ کو جنگل بدر کیا تھا
تمہیں خبر ہو اے شاہ بازو! کہ میں نئے پر نکالتا ہوں
یہ سرخ پانی جو میرے ساغر میں تم نے سمجھا ہے، وہ نہیں ہے
کہ صرف بچتا ہے آب، جب میں شراب سے شر نکالتا ہوں
میں پورے گیارہ مہینے لکھتا ہوں اپنی ناکامیوں پہ پرچے
مگر محبت پہ ہر دسمبر میں خاص نمبر نکالتا ہوں
تھے میرے والد کسان اور میری والدہ ایک شاعرہ تھیں
سو جس زمیں میں بھی ہاتھ ڈالوں میں مصرعہ تر نکالتا ہوں
۔۔۔۔۔عامر امیر۔۔۔۔۔