مکانِ ہجر کی تشکیل کرنے والی تھی
میں خوابِ وصل کی تذلیل کرنے والی تھی
سکوں طراز تھا اک عشق جس کے پہلو میں
بیان درد کی تفصیل کرنے والی تھی
میں تیری یاد کے جگنو سے روشنی لے کر
فضا ئے درد کو قندیل کرنے والی تھی
لبوں پہ ٹوٹتی دم توڑتی دعاؤ ں سے
فغاں کو آہ کی تمثیل کرنے والی تھی
وہاں طلب کا مقدر ہوۓ سرابِ غم
میں تشنگی کو جہاں جھیل کرنے والی تھی
پلک پلک پہ شبِ غم کے مشغلے چن کر
سحر کے خواب میں تبدیل کرنے والی تھی
کہاں پہ آکے ھوا قصہ ء حیات تمام
جب اپنے آپ کی تکمیل کرنے والی تھی
عجیب موڑ پہ ٹوٹا ھے ربطِ جسم و جاں
میں خود کو آپ میں تحلیل کرنے والی تھی
وہاں تھی لب پہ خموشی با پاسِ ضبط ِفغاں
جہاں بلاغ میں تعجیل کرنے والی تھی
وہ جس کو دیکھ کے آنکھیں دھمال ڈالتی ہیں
میں ایسے خواب کی تخئیل کرنے والی تھی
وہاں وہاں پہ ہوۓ بر گزیدہ حرف عطا
جہاں قلم پرِ جبریل کرنے والی تھی
پروین حیدر