مہرباں اچھا لگا، نا مہرباں اچھا لگا
مجھ کو وہ ہر رنگ میں ہی بے گماں اچھا لگا
فکر چارہ گر کی اک گمبھیر سی اچھی لگی
درد اک سینے میں بے نام و نشاں اچھا لگا
زندگی کیا تھی، مسلسل ریگ زاروں کا سفر
جانے کیوں پھر بھی مجھے یہ امتحاں اچھا لگا
اُس نے میرا ہاتھ تھاما جب سے اپنے ہاتھ میں
ہر سفر اچھا لگا، ہر کارواں اچھا لگا
ڈوبنے سے پیشتر، دل کی تسلی کے لیے
اک جزیرہ پانیوں کے درمیاں اچھا لگا
دکھ مرا اپنی جگہ یوں دیکھ کر اُس کو، مگر
مجھ کو وہ میری طرح بے خانماں اچھا لگا
ہو چکے ہیں اپنے اندر کے ہی موسم یوں نعیم
اب کے پت جھڑ میں بھی رنگِ گلستاں اچھا لگا
(محمد نعیم جاوید نعیم)