میری آنکھوں میں جو نم ہے کم ہے
بس یہی حاصلِ غم ہے کم ہے
میں نہیں بھولا تری یاد کوئی
دل پہ ہر بات رقم ہے کم ہے
اس سے مر سکتی نہیں سچائی
ایک ہی پیالہ جو سَم ہے کم ہے
مت قسم کھا تو قسم سے یہ قسم
پہلے کھائی جو قسم ہے کم ہے
اب تری یاد میں چیخیں الفاظ
یہ فسردہ جو قلم ہے کم ہے
تو نے انؔور سے ہی چھینا انؔور
کیا یہ تیرا جو سِتَم ہے کم ہے
انور ضیا مشتاق