غزل
نصرت فتح علی خان کی آواز نے اس غزل کو بھی روشنی عطا کی
میری آنکھوں کو بخشے ہیں آنسو دل کو داغ الم دے گئے ہیں
اس عنایت پہ قربان جاؤں پیار مانگا تھا غم دے گئے ہیں
دینے آئے تھے ہم کو تسلی وہ تسلی تو کیا ہم کو دیتے
توڑ کر کعبۂ دل ہمارا حسرتوں کے صنم دے گئے ہیں
دل تڑپتا ہے فریاد کر کے آنکھ ڈرتی ہے آنسو بہا کے
ایسی الفت سے وہ جاتے جاتے مجھ کو اپنی قسم دے گئے ہیں
مرحبا مے کشوں کا مقدر اب تو پینا عبادت ہے انورؔ
آج رندوں کو پینے کی دعوت واعظ محترم دے گئے ہیں
انور