میری جان پر عذاب رہنے دو
کہہ رہے ہیں جناب رہنے دو
چھوڑ کر اضطراب کی باتیں
حالت دل خراب رہنے دو
توڑ کر جبر کے پہاڑوں کو
داستان گلاب رہنے دو
میں نے جانا نہی کسی صورت
وصل کا انتساب رہنے دو
دو گھڑی ساتھ چلنے والوں کا
میرے سر پر عذاب رہنے دو
میں نے زنبیل کو اٹھایا ہے
اس لئے یہ گلاب رہنے دو
جاتے جاتے وہ کہہ گیا ناہید
زندگی پر سراب رہنے دو
ناہید علی