میری خاطر اہتمام دار میں دیوانہ ہوں
بخش دیجے گا مجھے سرکار میں دیوانہ ہوں
کوئے جاناں سے مجھے آگے نہ لے جائے جنوں
روک لے اے سایہ ء دیوار میں دیوانہ ہوں
آپ پتھر پھینکیئے یا سنگ باری کیجئے
وحشتیں ہیں رونق بازار میں دیوانہ ہوں
چوس لے میرا لہو میری رگوں سے کھینچ لے
اے زبان نشتر خونخوار میں دیوانہ ہوں
اور بھی کچھ زخم باقی ہیں تو مجھ کو سونپ دے
مجھ کو کیا اندیشہ ء آزار میں دیوانہ ہوں
نفع سے مجھ کو غرض ہے نہ خسارے سے کوئی
مجھ سےکیا کرتے ہو کاروبار میں دیوانہ ہوں
آپ کیا کہتے ہیں مفتی کے لئے ، معلوم ہے
لوگ کہتے ہیں سرِ بازار میں دیوانہ ہوں
سید عبد الستار مفتی