loader image

MOJ E SUKHAN

اردو شعراء

20/04/2025 08:27

میرے بدن میں تھی تری خوشبوئے پیرہن

میرے بدن میں تھی تری خوشبوئے پیرہن
شب بھر مرے وجود میں مہکا ترا بدن

ہوں اپنے ہی ہجوم تمنا میں اجنبی
میں اپنے ہی دیار نفس میں جلا وطن

سب پتھروں پہ نام لکھے تھے رفیقوں کے
ہر زخم سر ہے سنگ ملامت پہ خندہ زن

اب دشت بے اماں ہی میں شاید ملے پناہ
گھر کی کھلی فضا میں تو بڑھنے لگی گھٹن

ہر آدمی ہے پیکر فریاد ان دنوں
ہر شخص کے بدن پہ ہے کاغذ کا پیرہن

خوش فہم ہیں کہ صرف روایت پرست ہیں
خوش فکر تھے کہ لے اڑے تاریخ کا کفن

اس دور میں یہاں بھی فلسطین کی طرح
کچھ لوگ بے زمیں ہوئے کچھ لوگ بے وطن

مثل صبا کوئی ادھر آیا ادھر گیا
گھر میں بسی ہوئی ہے مگر بوئے پیرہن

سرشارؔ میں نے عشق کے معنی بدل دیے
اس عاشقی میں پہلے نہ تھا وصل کا چلن

سرشار صدیقی

Email
Facebook
WhatsApp

مزید شاعری

رباعیات

غزلیات

نظم