غزل
میرے خوابوں کو نگلنے کا ارادہ نہ کرے
کہہ دو سورج سے نکلنے کا ارادہ نہ کرے
اس سے بڑھ کر کوئی محتاج نہیں ہو سکتا
گر کے جو شخص سنبھلنے کا ارادہ نہ کرے
جو ہواؤں کے مزاجوں سے نہیں ہے واقف
میرے ہم راہ وہ چلنے کا ارادہ نہ کرے
گفتگو زہر بھری سن لے جو انسانوں کی
سانپ بھی زہر اگلنے کا ارادہ نہ کرے
اپنی قسمت میں ہے منزل تو خود آ جائے گی
اب جنوں راہ بدلنے کا ارادہ نہ کرے
نیتیں صاف گھٹاؤں کی نہیں ہیں عالمؔ
چاند سے کہہ دو نکلنے کا ارادہ نہ کرے
عالم نظامی