غزل
میرے قدموں سے اک رہ گزر باندھ کر
چھین لی اس نے منزل سفر باندھ کر
کیا زمیں دیکھنا کیا فلک دیکھنا
اس نے چھوڑا مجھے میرے پر باندھ کر
عمر رفتہ کی یادیں سنبھالے ہوئے
گھر سے نکلی ہوں نظروں میں گھر باندھ کر
میری نظروں میں جچتا نہ تھا یہ جہاں
اس نے جادو کیا تھا نظر باندھ کر
اک روایت نئی ڈالنی ہے مجھے
مصرعۂ تر میں بھی چشم تر باندھ کر
میرے رب نے مجھے معتبر کر دیا
میرے نوک قلم سے ہنر باندھ کر
حجاب عباسی