میرے ہاتھوں میں کچھ گلاب تو ہیں
جو نہ ممکن رہے وہ خواب تو ہیں
رنگ بکھرے ہیں چار سو میرے
ریگ زاروں میں کچھ سراب تو ہیں
تیری چاہت کی آرزو نہ سہی
مہ ترے سایہ عتاب تو ہیں
لفظ ڈھلنے لگے ہیں معنی میں
زندگی سے ملے جواب تو ہیں
روشنی سی رہی درختوں پر
جنگلوں پر رہے شباب تو ہیں
اس زمانے کی کیا حقیقت ہے
ساحلِ وقت پر حباب تو ہیں
شائستہ مفتی