میسر دیدۂ بینا نہیں ہے
وگرنہ آئنے میں کیا نہیں ہے
جسے سوچا اسے چاہا نہیں ہے
جسے چاہا اسے سوچا نہیں ہے
ہر اک شے قید ہے وحدت میں اپنی
ہمارا عکس بھی ہم سا نہیں ہے
اکائی بخش دیتا ہے بدن کو
اندھیرا روشنی جیسا نہیں ہے
اسے ادراک دوعالم نہ ہوگا
اگر شائستۂ دنیا نہیں ہے
سرابوں کا سفر ہے رازؔ اب تک
تسلسل خواب کا ٹوٹا نہیں ہے
رفیع الدین راز