Main Ab itni akeeli ho gaee hoon
غزل
میں اب اتنی اکیلی ہوگئ ہوں
کہ خود اپنی سہیلی ہوگئ ہوں
کوئ آسیب مجھ میں بس گیا ہے
میں جنگل کی حویلی ہوگئ ہوں
تو مجھ کو سوچنا اب زندگی بھر
میں اب ایسی پہیلی ہوگئ ہوں
ترا غم پیرہن جب سے کیا ہے
میں دلہن سی نویلی ہوگئ ہوں
وفا کو اس طرح مانگا ہے تجھ سے
بھکارن کی ہتھیلی ہوگئ ہوں
ترے آنے کا سن کر سعدیہ میں
ہوا؛خوشبو؛چنبیلی ہوگئ ہوں
سعدیہ سراج
sadia siraj