غزل
میں اور ہوں مرا دلِ دیوانہ اور ہے
افسانہ اور حاصلِ افسانہ اور ہے
دیوانگی پہ اب مری ہنستا نہیں کوئی
سب جانتے ہیں فطرتِ دیوانہ اور ہے
اس شمع رو کی بزم کے آداب دیکھیے
اک جل چکا تو دوسرا پروانہ اور ہے
دل بھر گیا ہے اب مرا دشت حیات سے
شاید نگاہ میں کوئی ویرانہ اور ہے
مجھ کو ہوا ہے تجربۂ زندگی کچھ اور
دنیا جو کہہ رہی ہے وہ افسانہ اور ہے
جب ہم پہ بند ہو گئے دیر و حرم کے در
تب راز یہ کھلا در جانانہ اور ہے
شاداںؔ کیا تو ہے اسے پانے کا حوصلہ
اب احتیاج جرأت رندانہ اور ہے
شاداں بدایونی