میں اہل دہر کی نظروں میں بے عقیدہ سہی
الٹ نقاب کہ نادیدہ آج دیدہ سہی
ہوائے کوچۂ محبوب کا ہوں دامن گیر
ہزار دامن محبوب نا رسیدہ سہی
تصورات ترے حسن سے ہیں وابستہ
تعلقات تری ذات سے کشیدہ سہی
مری بلند خیالی میں کیا کمی آئی
میں عرش زاد نہیں خاک آفریدہ سہی
مجھے نہیں نہ سہی ہو عدو کو چین نصیب
بشر کا دکھ ہے مجھے میں بشر گزیدہ سہی
جسے ملا ہے اسے مست کر گیا صہباؔ
مرے خیال کا بادہ سخن کشیدہ سہی
صہبا اختر