Main bhi dekhoon aaeena dena mujhy
غزل
میں بھی دیکھوں آئینہ دینا مجھے
کہہ رہے ہیں لوگ بے چہرہ مجھے
میں کہ ٹھہری اک حقیقت آشنا
ایسے ویسے خواب مت دکھلا مجھے
لطف اب دینے لگی آوارگی
جستجو اب حشر تک بھٹکا مجھے
پھر کوئی تازہ غلط فہمی ہوئی
مسکرا کر آپ نے دیکھا مجھے
جانتی تھی میں ،کہ طوفاں آئےگا
ہوگیا تھا کل ہی اندازہ مجھے
سنگ باری غیر کے ہاتھوں میں تھی
کوئی پتھر کس طرح چھوتا مجھے
میری کب خواہش تھی لوگوں نے کہا
میرے منہ پر بارہا اچھّا مجھے
میں نےپی رکھا تھا اک دریائے غم
وہ سمجھتا ہی رہا پیاسا مجھے
ایک سنگِ ناتراشیدہ تھی میں
کس طرح کوئی صنم کہتا مجھے
میں تو سنبل سچ کو سچ کہتی رہی
پھر بھی سب نے کیوں غلط جانا مجھے
صبیحہ سنبل
Sabiha Sunbal