میں تری آنکھ کا آنسو ستارہ کر رہا ہوں
جو کام کر نہیں سکتا دوبارہ کر رہا ہوں
ابھی تو لوٹ کے آیا ہوں تری یادوں سے
مگر میں باردگر پھر نظارہ کر رہا ہوں
رموزِ عشق کے آداب سے نہیں واقف
کتاب عشق سے میں استخارہ کر رہا ہوں
عجب ہیں اہلِ زمیں جن کے میں دل وجاں پر
بس حکمرانی پہ اپنی گزرا کر رہا ہوں
وصال و ہجر کے زندان سے نہیں نکلا
وفا پرست ہوں سو استخارہ کر رہا ہوں
سجا ہوں معرفت عشق سے بتاؤں کسے
عدو کی بات پہ اپنا خسارہ کر رہا ہوں
نکل سکا نہ کبھی دل کی دھڑکنوں سے رضا
میں آج بھی ترے دل پر اجارہ کر رہا ہوں
حسن رضا