میں شعلۂ اظہار ہوں کوتاہ ہوں قد تک
وسعت مری دیکھو تو ہے دیوار ابد تک
ماحول میں سب گھولتے ہیں اپنی سیاہی
رخ ایک ہی تصویر کے ہیں نیک سے بد تک
کچھ فاصلے ایسے ہیں جو طے ہو نہیں سکتے
جو لوگ کہ بھٹکے ہیں وہ بھٹکیں گے ابد تک
کب تک کوئی کرتا پھرے کرنوں کی گدائی
ظلمت کی کڑی دھوپ تو ڈستی ہے ابد تک
یوں روٹھے مقدر کہ کوئی کام نہ بن پائے
یوں ٹوٹے سہارا کوئی پہنچے نہ مدد تک
اب بھی ترے نزدیک موحد نہیں فارغؔ
اقرار کیا ہے ترا انکار کی حد تک
فارغ بخاری