میں نے تو درد کو سینے میں چھپا رکھا ہے
پھر بھی لوگوں نے مرا افسانہ بنا رکھا ہے
تیری آنکھوں سے ہی پیمانہ بھرا کرتے ہیں
ہم کو معلوم ہے ، میخانے میں کیا رکھا ہے
گو ترےساتھ رہے پر تجھے مل نہ سکے
جیسے پانی نے کناروں کو جدا رکھا ہے
چاند سے ان کی توجہ کو ہٹانے کیلئے
روشنی ہم نے بھی کی، گھر کو جلا رکھا ہے
ہے بصیرت کی تمنا میرے دیدہِ دل کو
کون کہتا ہے کہ کعبے میں خدا رکھا ہے
وہ حسیں شہر میں کچھ روز تو ٹھہرے گا ابھی
بس یہی سوچ کے گھر اپنا سجا رکھا ہے
میں تصور میں ہی دیدار کیے لیتا ہوں
عکس کو آنکھ کے پردے میں چھپا رکھا ہے
٭٭٭
سید الطاف بخاری